سچائی کی فتح

سچائی کی فتح

از اسکندر جدید


دیباچہ

عزیز بھائی، میں آپ کےلئے خدا کے فضل اور اطمینان کی دُعا کرتا ہوں۔ مجھے آپ کا مکتوب ملا جس میں آپ نے ذِکر کیا کہ آپ خیالات اور نیک تمناﺅں کا تبادلہ کرنا چاہتے ہیں اور یہی سچائی کی فتح میں ہمارا مقصد ہے۔ آئیے فکری جمود اور مذہبی تعصب سے بچیں، اور انسانیت کو افراتفری سے بچانے اور اِسے تاریکی سے نور میں رہائی بخشنے کےلئے ایک مکالمہ کریں۔ سو دِل کی گہرائیوں سے خوش آمدید۔

جو سوالات آپ نے مجھے بھیجے ہیں اُن پر ایک نظر کرنے کے بعد، میں نے دوسرے سوال پر توقف کر کے غور کیا جو یہ ہے کہ "کونسلوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ عیسیٰ، مریم اور روح القدس کی الوہیت کا چناﺅ کریں؟"

میں نے انتہائی مایوسی کے ساتھ توقف کیا کیونکہ آپ کی نیک منشا اِس سوال کے ساتھ مفقود ہو گئی۔ آپ کی رائے کا مکالمے یا انسان کی نجات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ آپ کے سخت الفاظ نے خدا تعالیٰ کے سچے دین مسیحیت کی سچائی کو نشانہ بنایا ہے۔ یہ دیکھ کر اَور زیادہ مایوسی ہوئی کہ آپ اپنے آپ کو سچائی کا محافظ کہتے ہیں۔ آپ سچائی سے کوسوں دور ہیں، اور یوں سچائی کے خلاف ہیں۔ آپ نے بدعتی افراد کی تعلیمات کایقین کیا ہے اور مستند مسیحیت پر مُقدّسہ مریم کو ایک خدا بنا دینے کا الزام لگایا ہے۔

اِس سے پہلے کہ میں آپ کے سوالات کے جوابات دوں، میں آپ کے اِن الفاظ "مہربانی سے میرے سوالات کا جائزہ لیں اور اُن کا جواب دیں تا کہ آپ اپنے جرم کا احساس کر سکیں نہ کہ اپنے آپ کو اُس کا ستم رسیدہ سمجھیں"، کے بارے میں آپ کو بتانا لازم سمجھتا ہوں کہ آپ ایک غلط فہمی کا شکار ہیں۔ میں نے جناب یسوع کے الفاظ سُن رکھے ہیں جنہوں نے فرمایا: "اگر تم میرے کلام پر قائم رہو گے تو حقیقت میں میرے شاگرد ٹھہرو گے۔ اور سچائی سے واقف ہو گے اور سچائی تم کو آزاد کرے گی۔" (یوحنا 8: 31-32)

آپ کو سچ بتاتا چلوں، مسیح کے الفاظ نے مجھے تمام بندھنوں سے رہائی بخشی ہے، جن میں سے ایک بدلے کی خواہش بھی تھی۔ خدا کے پا ک روح نے مجھے اپنے کلام میں مضبوطی سے قائم رکھا ہے جو بیان کرتا ہے: "لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو۔ تا کہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راستبازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے" (متی 5: 44-45)۔

میرا یقین کیجئے گا، جب میں نے آپ کے سخت الفاظ کو پڑھنا ختم کیا تو آپ کےلئے دُعا کی۔ اب اِس سے پہلے کہ میں آپ کے سوالات کے جواب دوں، مہربانی سے میری نیک تمناﺅں کو قبول کیجئے۔

اسکندر جدید

سوال-1

مُقدّس اگستین نے کہا: "میں ایک ایماندار اِس لئے ہوں کیونکہ یہ امر عقل سے مطابقت نہیں رکھتا۔" تو پھر پاگل فرد اور ایسے فرد کے درمیان جو عقل کو دباتا ہے کیا فرق رہ جاتا ہے؟

جواب:

آپ نے اِس اقتباس کے بارے میں اگستین کا نکتہ نظر بیان نہیں کیا بلکہ اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ایک فرد کےلئے کسی بھی بیان کی وضاحت اُس کے اپنے خیالات کے مطابق کرنا آسان ہوتا ہے۔ لفظ "ایمان" انسان کو مجبور کر دیتا ہے کہ اُس چیز کو قبول کرے جسے ذہن سمجھ نہیں سکتا۔ کلامِ خداوندی بیان کرتا ہے "اب ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے" (عبرانیوں 11: 1)۔ یہ قول علمائے ایمان کی تعریف سے مختلف نہیں ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ تصدیق شہادت پر مبنی ہوتی ہے نہ کہ حواس پر۔ ایمان اُس چیز پر بھروسا ہے جس کی ایماندار کو اُمید ہوتی ہے، اندیکھی چیزوں کا ثبوت۔ مُردوں کی قیامت پر ایمان خدا تعالیٰ کی گواہی پر مبنی ہے جو اُس کی کتاب میں ہے، بالکل جیسے فردوس پر ایمان ہے جس کی ہمیں اُمید تو ہے لیکن ابھی اُسے نہیں دیکھتے۔ الہامی کتاب اِس کے وجود کی شہادت دیتی ہے۔

اِس تعریف کی معقولیت کےلئے مزید ثبوت یہ ہے:

الف- ہم تاریخی واقعات پر مورخین کی شہادت کے مطابق ایمان رکھتے ہیں، اور سائنسی حقیقتوں پر سائنسدانوں کی گواہی کے مطابق ایمان رکھتے ہیں۔ ہم خلق، گناہ میں گرنے، اور مخلصی پر بھی خدا کے مکاشفہ کی بنیاد پر جو اُس نے اپنی کتاب مُقدس میں دیا ایمان رکھتے ہیں، جس میں لکھا ہے "ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو" (عبرانیوں 11: 3)۔ ہم ابدی زندگی، تجدید یعنی تبدیلی، راستباز ٹھہرائے جانے، تقدیس، قیامت، اور روز ِآخر عدالت کے عقیدے پر بھی ایمان رکھتے ہیں۔ اِن سب کو خدا تعالیٰ کی گواہی کی بنیاد پر قبول کیا جاتا ہے۔

ب- کتاب مُقدّس بھی ایمان کو بیان کرتی ہے، اور نئے عہدنامہ کو یسوع کی گواہی کہا گیا ہے۔ یسوع مسیح ایک فلسفی کے طور پر نہیں بلکہ ایک گواہ کے طور پر تشریف لائے ۔آپ نے نیکدیمس سے کہا "میں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جو ہم جانتے ہیں وہ کہتے ہیں اور جسے ہم نے دیکھا ہے اُس کی گواہی دیتے ہیں اور تم ہماری گواہی قبول نہیں کرتے" (یوحنا 3: 11)۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے یہودیوں کو بتایا "جو اُوپر سے آتا ہے وہ سب سے اُوپر ہے۔ جو زمین سے ہے وہ زمین ہی سے ہے اور زمین ہی کی کہتا ہے۔ جو آسمان سے آتا ہے وہ سب سے اُوپر ہے۔ جو کچھ اُس نے دیکھا اور سُنا اُسی کی گواہی دیتا ہے اور کوئی اُس کی گواہی قبول نہیں کرتا۔ جس نے اُس کی گواہی قبول کی اُس نے اِس بات پر مُہر کر دی کہ خدا سچا ہے" (یوحنا 3: 31-33)۔

مسیح کے رسول گواہ تھے۔ یسوع نے اُن سے وعدہ کیا "لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پاﺅ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے" (اعمال 1: 8)۔ جب اُنہوں نے یونان میں گواہی دی تو اپنی تعلیمات کو فلسفے پر قائم نہ کیا۔ پولس رسول نے کہا کہ دُنیا کی حکمت خدا کے نزدیک بیوقوفی ہے۔ رسول فلسفی نہیں تھے بلکہ گواہ تھے، اور اُنہوں نے روحانی امور کو انسانی حکمت سے ثابت نہ کیا، بلکہ خدا کے کلام کی منادی کی۔ ایمان کے بارے میں کتاب مُقدس کی تعلیم کے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت گواہی پر مبنی تصدیق ہے۔ جو کچھ خدا کے روح نے مخلصی کی بابت ظاہر کیا ہے، خدا کا کلام ہمیں اُس پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے۔ کتاب مُقدس میں مرقوم ہے " جو خدا کے بیٹے پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے آپ میں گواہی رکھتا ہے۔ جس نے خدا کا یقین نہیں کیا اُس نے اُسے جھوٹا ٹھہرایا کیونکہ وہ اُس گواہی پر جو خدا نے اپنے بیٹے کے حق میں دی ہے ایمان نہیں لایا۔ اور وہ گواہی یہ ہے کہ خدا نے ہمیں ہمیشہ کی زندگی بخشی اور یہ زندگی اُس کے بیٹے میں ہے" (1-یوحنا 5: 10-11)۔ اور یہ ایمان کی حقیقت کے بارے میں واضح ترین اظہار ہے۔

مختصر یہ کہ، ایمان جس کا مکاشفہ خدا تعالیٰ نے بخشا اُس کی بنیاد اُسی کی گواہی ہے۔ جو کوئی اِس گواہی کو قبول کرتا ہے اقرار کرتا ہے کہ خدا سچا ہے، اور جو کوئی اِس کا انکار کرتا ہے وہ خدا کو جھوٹا ٹھہراتا ہے، اور یہ ایک بہت بڑا کفر ہے۔

اگر ہم لوگوں کی گواہی قبول کر لیتے ہیں تو خدا کی گواہی تو اُس کی نسبت بہت ہی بڑی ہے۔ کتاب مُقدّس بارہا اِس حقیقت کی تعلیم دیتی ہے۔ یہ وہ بنیاد ہے جس پر ہم اپنا ایمان تعمیر کرتے ہیں، اور یہ ہمیں یہ کہہ کر حکم دیتی ہے "خداوند فرماتا ہے۔"

کتاب مُقدّس ایمان کےلئے ایک اَور تعریف بیان کرتی ہے۔ جب ہمارے اوّلین آباﺅ اجداد آدم اور حوا نے خدا تعالیٰ کی نافرمانی کی تو اُس نے اُن سے وعدہ کیا "اور میں تیرے اور عورت کے درمیان اور تیری نسل اور عورت کی نسل کے درمیان عداوت ڈالونگا۔ وہ تیرے سر کو کچلے گا اور تُو اُس کی ایڑی پر کاٹے گا" (پیدایش 3: 15)۔ اِس وعدہ پر ایمان خدا کی گواہی پر مبنی ہے۔ جب نوح نبی کو خدا تعالیٰ نے آنے والے طوفان کے بارے میں آ گاہ کیا تو اُس نے اُنہیں ایک کشتی تیار کرنے کا حکم دیا۔ نوح نبی نے طوفان کے آنے کے نشانات دیکھے بغیر خدا کے کلام کا یقین کیا۔

خدا تعالیٰ نے ابرہام نبی سے وعدہ کیا کہ اُس کی عمر رسیدہ بیوی سارہ ایک لڑکے کو جنم دے گی جو اُن کا وارث ہو گا۔ کتاب مُقدّس میں لکھا ہے "اب ایمان اُمید کی ہوئی چیزوں کا اعتماد اور اندیکھی چیزوں کا ثبوت ہے" (عبرانیوں 11: 1)۔ بظاہر یہ وعدہ خلافِ عقل معلوم ہوتا ہے۔ ایک اَور آیت پر غور کیجئے "اور ابراہام اور سارہ ضعیف اور بڑی عمر کے تھے اور سارہ کی وہ حالت نہیں رہی تھی جو عورتوں کی ہوتی ہے" (پیدایش 18: 11)۔ سارہ نوے برس کی ہو چکی تھی اور گو کہ فطرتی طور پر یہ ممکن نہیں تھا، لیکن سارہ ایمان لائی اور خدا کی قدرت سے اُس نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام اُنہوں نے اضحاق رکھا۔

سو، اِن واقعات کی بنیاد پر ہم ایمان کی تعریف سچائی کو قبول کرنے کے طور پر کرتے ہیں۔ مسیحیوں بشمول مُقدّس اگستین کا ایمان سادہ طور پر کتاب مُقدّس میں درج واقعات اور تعلیمات کا یقین کرنا اور خدا کی گواہی پر بھروسا کرنا ہے۔

سوال-2

کونسلوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ عیسیٰ، مریم اور روح القدس کی الوہیت (خدا ہونے) کو تجویز کریں؟ اگر کونسلوں کے پاس یہ کرنے کا اختیار ہے، تو کیا اُن کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ اُن کی الوہیت سے اُنہیں محروم کر دیں اور اُسے کسی اَور کےلئے تجویز کریں؟ اُنہیں کس نے اختیار دیا کہ وہ پوپ کو لاخطا بنائیں؟ کلیسیا کو کس نے گناہوں کو معاف کرنے اور دین بدر کرنے کا اختیار بخشا؟

جواب:

اِس سے پہلے کہ میں اِس سوال کا جواب دوں، میں آپ کو اُس بات کی یاد دہانی کرانا چاہوں گا جو قرآن بیان کرتا ہے "اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو مگر ایسے طریق سے کہ نہایت اچھا ہو" (سورہ عنکبوت 29: 46)۔

اِس سوال کو اُٹھانے سے آپ نے تعلیمات قرآنی سے انحراف کیا ہے۔ یاد رکھئے، ہر ایک مسلم کو قرآن کی تعلیمات کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے:

الف- مسیحیت مُقدّسہ مریم کو خدا کا رتبہ نہیں دیتی۔ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ آپ کے سوال میں کوئی قابل ذِکر دریافت نہیں ہے۔ یہ سوال قرآن میں موجود ہے "اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟" (سورہ المائدہ 5: 116)۔ یہ سوال ظہورِ اسلام کے وقت چند بدعتوں کی موجودگی کی وجہ سے پوچھا گیا۔ وہ بت پرست تھے۔ اُن میں سے چند بدعتیوں نے کلیسیا میں شامل ہونے کی کوشش کی اور مریم کو ایک دیوی کہا۔ مورخ بیان کرتے ہیں کہ اُنہوں نے اپنی پرانی دیوی الزہرہ جس کی وہ پرستش کرتے تھے، اُس کی جگہ مریم کو ایک دیوی بنا لیا۔ یہ بدعتی گروہ مسیحیت کی تعلیمات سے بہت دُور تھا، اور ایک بھی سچا مسیحی اِن کے عقائد پر ایمان نہیں رکھتا۔ بعد ازاں بہت سے مسیحی علما نے بائبلی دلائل کے ساتھ اِس بدعت کا مقابلہ کیا۔ یہ بدعتی گروہ ساتویں صدی کے اختتام تک مکمل طور پر ختم ہو گیا۔

ویسے میں اپنے دوست کو جس نے یہ سوال پوچھا ہے، بتانا چاہوں گا کہ اسلام خود بھی اُن بدعتی گروہوں سے محفوظ نہیں تھا جنہوں نے خود کو اُس سے وابستہ کیا۔ ایسے بہت سے گروہ ہیں، لیکن میں چند ایک کا ہی ذِکر کروں گا۔

(1) السبانیة: جو عبداللہ بن سبا کے پیروکار تھے۔ اُن کا ماننا تھا کہ علی بن ابی طالب خدا تھے، اور جب اُس نے اُنہیں جلا کر سزا دی تو اُنہوں نے کہا "اب ہم نے جان لیا کہ آپ خدا ہیں، کیونکہ خدا آگ سے سزا دیتا ہے۔"

(2) الشیطانیة: محمد بن نعمان جو شیطان کہلاتا تھا، یہ اُس کے پیروکار تھے۔ وہ شیطان کی تعظیم کرتے تھے۔

(3) الجناحیة: یہ عبد اللہ بن معاویہ کے پیروکار تھے۔ اُن کا ماننا تھا کہ آدم میں خدا کی روح تھی اور پھر وہ اُن کے راہنما عبد اللہ میں منتقل ہو گئی جسے "دو پروں والا خدا" کہا گیا۔

(4) البزیغة: یہ بزیغ بن موسیٰ کے پیروکار تھے۔ یہ مانتے تھے کہ جعفر صادق خدا تھا لیکن لوگوں کی طرح انسانی صورت رکھتا تھا۔

(5) الحائطیة: یہ احمد بن حائط کے پیروکار تھے۔

(6) المزداریة: یہ عیسیٰ بن صبح کے پیروکار تھے جس کا لقب المزدار تھا۔ وہ مانتے تھے کہ خدا جھوٹ بولنے اور ظلم کرنے کی قدرت رکھتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ قرآن مخلوق ہے۔

اِن کے علاوہ اَور بھی بہت سے بدعتی گروہ ہیں جن سب کا ذِکر ہم اِس کتابچہ میں کرنے کے قابل نہیں ہیں۔

کیا اسلام اِن بدعتی گروہوں کی موجودگی کا ذمہ دار ہے؟ کیا اِن کے وجود نے دینِ اسلام کو بدل دیا ہے؟

ب- سوال میں لفظ "تجویز" خداوند یسوع مسیح کےلئے غیر مناسب طور پر استعمال کیا گیا ہے، کیونکہ الوہیت کوئی ایسی چیز نہیں جسے انسان تجویز کریں۔ چاہے آپ اِسے پسند نہ کریں، لیکن سچائی پھر بھی قائم ہے; مسیح سچے خدا سے سچا خدا ہے۔ اُس نے خود اِس سچائی کا اعلان کیا اور لوگوں کے بڑے ہجوموں نے اُسے سُنا، اور تمام قوموں، ادیان اور ذہنیتوں کے لاکھوں لوگوں نے اِس گواہی کو پڑھا۔ عالموں، حکیموں، فلسفیوں، چھوٹے بڑے لوگوں نے اِس گواہی کو پڑھا اور اپنے دِلوں اور آنکھوں کو اپنے کانوں سے پہلے کھولا تا کہ اُس کے اپنے بارے میں جلالی اقوال کی معموری کو اپنے اندر جذب کر سکیں۔ اُنہوں نے تعظیم و تعریف کے ساتھ اُسے سُنا۔

ایک جرمن مصنف نے کہا "اگر مسیح محض ایک اُستاد ہوتا، تو وہ سب جنہوں نے اُسے سُنا اُن کی توجہ اور بھروسا لاحاصل ہوتا۔ لیکن چونکہ وہ دُنیا کا نجات دہندہ ہے اِس لئے اُسے اُن الفاظ پر زور دینے کی ضرورت تھی جو اُس کی زبردست شخصیت کی طرف اشارہ کرتے ہیں، تا کہ لوگ اُس پر ایمان لائیں، "جو ایمان لائے ...وہ نجات پائے گا۔"

بشپ سرجیوس نے کہا "مسیح لاثانی تھا۔ نیا عہدنامہ پڑھنے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ جہاں کہیں مسیح گیا سب سوالات اُسی کے بارے میں ہوتے تھے۔" اِس میں یہ حکمت اور معجزے کہاں سے آئے؟ "کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں؟ یہ کیا ہے؟ یہ تو نئی تعلیم ہے! وہ ناپاک روحوں کو بھی اختیار کے ساتھ حکم دیتا ہے اور وہ اُس کا حکم مانتی ہیں۔"

اُس کے بارے میں یہ سوالات کیا ہیں؟ کیا وہ ہمیں یہ ثبوت فراہم نہیں کرتے کہ وہ اِس دُنیا کے تمام افراد سے زیادہ حیرت انگیز شخصیت ہے؟ وہ لاثانی اور تمام بنی آدم سے عظیم تر تھا۔

اگر وہ خدا نہ ہوتا تو مسیح کی اپنے بارے میں گواہی قائم نہ رہتی۔ اُس نے اپنے بارے میں گواہی دی، کیونکہ وہ سچا خدا ہے۔ اُس کے دعووں سے پتا چلتا ہے کہ وہ مافوق الفطرت ہے۔

ذیل میں مسیح کی چند صفات کا بیان کیا گیا ہے:

(1) اختیار: "آسمان اور زمین کا کل اختیار مجھے دیا گیا ہے" (متی 28: 18)۔

(2) الوہیت (ایک خدا) کے ساتھ یگانگت: "میں اور باپ ایک ہیں" (یوحنا 10: 30); "میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں" (یوحنا 14: 11); "جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ کو دیکھا" (یوحنا 14: 9)۔

(3) ازلی: "پیشتر اُس سے کہ ابرہام پیدا ہوا میں ہوں" (یوحنا 8: 58)۔ یہ اُس کا اپنے بارے میں انتہائی واضح بیان ہے۔ اُس کے الفاظ "میں ہوں" وہی الفاظ ہیں جو خدا نے موسیٰ سے کہے "میں ضرور تیرے ساتھ رہوں گا اور اِس کا کہ میں نے تجھے بھیجا ہے تیرے لئے یہ نشان ہو گا کہ جب تُو اُن لوگوں کو مصر سے نکال لائے گا تو تم اِس پہاڑ پر خدا کی عبادت کرو گے۔ تب موسیٰ نے خدا سے کہا جب میں بنی اسرائیل کے پاس جا کر اُن کو کہوں کہ تمہارے باپ دادا کے خدا نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے اور وہ مجھے کہیں کہ اُس کا نام کیا ہے؟ تو میں اُن کو کیا بتاﺅں؟ خدا نے موسیٰ سے کہا میں جو ہوں سو میں ہوں۔ سو تُو بنی اسرائیل سے یوں کہنا کہ میں جو ہوں نے مجھے تمہارے پاس بھیجا ہے" (خروج 3: 12-14)۔ "میں جو ہوں سو میں ہوں" کا معنٰی یہ ہے کہ مسیح اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ وہ وہی خدا ہے جو موسیٰ پر جھاڑی میں ظاہر ہوا۔

جب مسیح یوحنا پر پتمس کے جزیرے پر ظاہر ہوا تو اُس نے اُس سے کہا "خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مطلق فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا ہوں" (مکاشفہ 1: 8)۔ الفاظ "الفا اور اومیگا" یونانی زبان کے پہلے اور آخری حروف تہجی ہیں اور مسیح کے ازلی و ابدی ہونے کا اشارہ دیتے ہیں۔

(4) خدا مسیح کے وسیلہ سے کلام کرتا ہے: "یہ باتیں جو میں تم سے کہتا ہوں اپنی طرف سے نہیں کہتا لیکن باپ مجھ میں رہ کر اپنے کام کرتا ہے" (یوحنا 14: 10)۔

(5) مسیح آسمان اور زمین پر موجود ہے: "اور آسمان پر کوئی نہیں چڑھا سوا اُس کے جو آسمان سے اُترا یعنی ابنِ آدم جو آسمان میں ہے" (یوحنا 3: 13)۔ یہاں وہ صرف آسمان پر سے اپنے آنے کے بارے میں بات نہیں کر رہا، بلکہ آسمان پر اپنے ابدی وجود کے بارے میں بھی بات کر رہا ہے۔

(6) مسیح زندوں اور مُردوں کا منصف ہے: "جب ابنِ آدم اپنے جلال میں آئے گا اور سب فرشتے اُس کے ساتھ آئیں گے تب وہ اپنے جلال کے تخت پر بیٹھے گا۔ اور سب قومیں اُس کے سامنے جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جیسے چرواہا بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔ اور بھیڑوں کو اپنے دہنے اور بکریوں کو بائیں کھڑا کرے گا۔ اُس وقت بادشاہ اپنی دہنی طرف والوں سے کہے گا آﺅ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بنایِ عالم سے تمہارے لئے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔ کیونکہ میں بھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں پیاسا تھا۔ تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں پردیسی تھا۔ تم نے مجھے اپنے گھر میں اُتارا۔ ننگا تھا۔ تم نے مجھے کپڑا پہنایا۔ بیمار تھا۔ تم نے میری خبر لی۔ قید میں تھا۔ تم میرے پاس آئے۔ تب راستباز جواب میں اُس سے کہیں گے اے خداوند! ہم نے کب تجھے پردیسی دیکھ کر گھر میں اُتارا؟ یا ننگا دیکھ کر کپڑا پہنایا؟ ہم کب تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟ بادشاہ جواب میں اُن سے کہے گا میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تم نے میرے اِن سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ سلوک کیا تو میرے ہی ساتھ کیا۔ پھر وہ بائیں طرف والوں سے کہے گا اے ملعونو میرے سامنے سے اُس ہمیشہ کی آگ میں چلے جاﺅ جو ابلیس اور اُس کے فرشتوں کےلئے تیار کی گئی ہے" (متی 25: 31- 41)۔ اِن الفاظ کو کہنے سے مسیح ہمیں دکھاتا ہے کہ وہ راست منصف ہے۔ وہ بڑے جلال میں اپنے فرشتوں کے ساتھ واپس آنے کو ہے "سردار کاہن نے اُس سے کہا میں تجھے زندہ خدا کی قسم دیتا ہوں کہ اگر تُو خدا کا بیٹا مسیح ہے تو ہم سے کہہ دے۔ یسوع نے اُس سے کہا تُو نے خود کہہ دیا بلکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اِس کے بعد تم ابنِ آدم کو قادرِ مطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں پر آتے دیکھو گے" (متی 26: 63- 64)۔

(7) وہ ہمہ جا ہے: مسیح نے اپنے شاگردوں کے سامنے یہ دعویٰ کیا: "دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں" (متی 28: 18)، "کیونکہ جہاں دو یا تین میرے نام پر اکھٹے ہیں وہاں میں اُن کے بیچ میں ہوں" (متی 18: 20)۔

(8) اُس نے توریت کو پورا کیا: "تم سُن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا گیا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے گا وہ عدالت کی سزا کے لائق ہو گا۔... تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ زنا نہ کرنا۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ جس کسی نے بُری خواہش سے کسی عورت پر نگاہ کی وہ اپنے دِل میں اُس کے ساتھ زنا کر چکا۔ ... تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا... تم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ اپنے پڑوسی سے محبت رکھ اور اپنے دُشمن سے عداوت۔ لیکن میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اپنے دُشمنوں سے محبت رکھو اور اپنے ستانے والوں کےلئے دُعا کرو" (متی 5: 21-48)۔

مسیح کے کام اُس کی الوہیت کی گواہی دیتے ہیں:

(الف) مُردوں کا زندہ کیا جانا (لوقا 7: 13-15; مرقس 5: 22; یوحنا 11: 1-27)۔

(ب) گناہوں کی معافی (مرقس 2: 5- 12)۔

(ج) اُس کا علیم کُل ہونا (لوقا 22: 10- 12)۔

(د) فطرت کے عناصر پر اختیار و قدرت (لوقا 8: 22- 25)۔

(ہ) روح القدس کا بھیجنا (یوحنا 15: 26)۔

(و) اُس کاسب چیزوں کا خالق ہونا (کلسیوں 1: 16)۔

باپ، بیٹے یسوع مسیح کی الوہیت کی گواہی دیتا ہے۔ اُس نے اِس سچائی کو اپنے نبیوں پر منکشف کیا جنہوں نے روح القدس کی تحریک سے مُقدّس کتابوں کو تحریر کیا۔ مثلاً یسعیاہ 9: 6 میں لکھا ہے "اِس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدایِ قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔" یسعیاہ 7: 14 میں لکھا ہے "لیکن خداوند آپ تم کو ایک نشان بخشے گا۔ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا پیدا ہو گا اور وہ اُس کا نام عمّانُوایل رکھے گی۔" اِس بات کی یاددہانی ہمیں متی 1: 23 میں کروائی گئی ہے "دیکھو ایک کنواری حاملہ ہو گی اور بیٹا جنے گی اور اُس کا نام عمّانُوایل رکھیں گے جس کا ترجمہ ہے خدا ہمارے ساتھ۔"

شاگردوں نے جناب مسیح کی الوہیت کی گواہی دی۔ وہ شاگرد اور رسول جنہوں نے قدیم یہودی شریعت کا مطالعہ کیا تھا اُن کی گواہی بہت اہم ہے۔ اُن کی گواہی مسیح کے ساتھ ہونے، اُس کی تعلیمات کو سُننے اور اُس کو معجزات کو دیکھنے کے اُن کے تجربے کی بدولت آئی۔ وہ خدا کے ایک ہونے پر ایمان رکھتے تھے اوراُنہوں نے پرانے عہدنامہ کے عقائد سے انحراف نہ کیا۔ اُنہوں نے مسیح میں اپنی روحانی زندگیوں کےلئے زندگی بخش پانی کا چشمہ پایا۔ اُن میں سے کسی نے بھی مسیح کی بطور خداوند، نجات دہندہ اور خدا پرستش کرنے کی حقیقت کا انکار نہ کیا۔ ذیل میں مسیح کی الوہیت کے بارے میں اُن کی چند گواہیاں دی گئی ہیں:

(1) مرقس انجیل نویس، اپنی انجیل کے شروع میں لکھتا ہے "یسوع مسیح ابنِ خدا کی خوشخبری کا شروع"، اور اختتام اِن الفاظ سے کرتا ہے "غرض خداوند یسوع اُن سے کلام کرنے کے بعد آسمان پر اُٹھایا گیا اور خدا کی دہنی طرف بیٹھ گیا۔ پھر اُنہوں نے نکل کر ہر جگہ منادی کی اور خداوند اُن کے ساتھ کام کرتا رہا اور کلام کو اُن معجزوں کے وسیلہ سے جو ساتھ ساتھ ہوتے تھے ثابت کرتا رہا۔"

(2) یوحنا انجیل نویس پیارا شاگرد اپنی انجیل کا آغاز اِن الفاظ سے کرتا ہے "ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔" اصل یونانی متن میں "کلام" کےلئے استعمال ہونے والا لفظ "لوگوس" ہے جس کا مفہوم یہ ہے "وہ قدرت جو کائنات کی مالک ہے"، یا "خدا اور انسان کے بیچ میں درمیانی۔" اُس کے وسیلے سے تمام کائنات بنی۔ اُن سب کو خاموش کروانے کےلئے، جو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ خدا کےلئے ایک مجسم وجود اختیار کرنا ناممکن ہے، اُس نے کہا "اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا ایسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اکلوتے کا جلال" (یوحنا 1: 14)۔

(3) پطرس رسول نے یہودیوں کی ایک بڑی بھیڑ کے سامنے یہ کہا "اے اسرائیلیو! یہ باتیں سُنو کہ یسوع ناصری ایک شخص تھا جس کا خدا کی طرف سے ہونا تم پر اُن معجزوں اور عجیب کاموں اور نشانوں سے ثابت ہوا جو خدا نے اُس کی معرفت تم میں دکھائے۔ چنانچہ تم آپ ہی جانتے ہو۔ جب وہ خدا کے مقررہ انتظام اور علمِ سابق کے موافق پکڑوایا گیا تو تم نے بے شرع لوگوں کے ہاتھ سے اُسے مصلوب کروا کر مار ڈالا۔ لیکن خدا نے موت کے بند کھول کر اُسے جلایا کیونکہ ممکن نہ تھا کہ وہ اُس کے قبضہ میں رہتا۔ کیونکہ داﺅد اُس کے حق میں کہتا ہے کہ 'میں خداوند کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا رہا۔ کیونکہ وہ میری دہنی طرف ہے تا کہ مجھے جنبش نہ ہو۔ اِسی سبب سے میرا دِل خوش ہوا اور میری زبان شاد بلکہ میرا جسم بھی اُمید میں بسا رہے گا۔ اِس لئے کہ تُو میری جان کو عالمِ ارواح میں نہ چھوڑے گا اور نہ اپنے مُقدّس کے سڑنے کی نوبت پہنچنے دے گا۔ تُو نے مجھے زندگی کی راہیں بتائیں۔ تُو مجھے اپنے دیدار کے باعث خوشی سے بھر دے گا۔' اے بھائیو! میں قوم کے بزرگ داﺅد کے حق میں تم سے دلیری کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ وہ موا اور دفن بھی ہوا اور اُس کی قبر آج تک ہم میں موجود ہے۔ پس نبی ہو کر اور یہ جان کر کہ خدا نے مجھ سے قسم کھائی ہے کہ تیری نسل سے ایک شخص کو تیرے تخت پر بٹھاﺅں گا۔ اُس نے پیشینگوئی کے طور پر مسیح کے جی اُٹھنے کا ذِکر کیا کہ نہ وہ عالمِ ارواح میں چھوڑا گیا نہ اُس کے جسم کے سڑنے کی نوبت پہنچی۔ اِسی یسوع کو خدا نے جلایا جس کے ہم سب گواہ ہیں۔ پس خدا کے دہنے ہاتھ سے سر بلند ہو کر اور باپ سے وہ روح القدس حاصل کر کے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اُس نے یہ نازل کیا جو تم دیکھتے اور سُنتے ہو۔ کیونکہ داﺅد تو آسمان پر نہیں چڑھا لیکن وہ خود کہتا ہے کہ 'خداوند نے میرے خداوند سے کہا میری دہنی طرف بیٹھ۔ جب تک میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں تلے کی چوکی نہ کر دوں۔' پس اسرائیل کا سارا گھرانا یقین جان لے کہ خدا نے اُسی یسوع کو جسے تم نے مصلوب کیا خداوند بھی کیا اور مسیح بھی" (اعمال 2: 22- 36)۔

(4) پولس رسول نے روح القدس کی تحریک سے کہا "پھر بھی کاملوں میں ہم حکمت کی باتیں کہتے ہیں لیکن اِس جہان کی اور اِس جہان کے نیست ہونے والے سرداروں کی حکمت نہیں۔ بلکہ ہم خدا کی وہ پوشیدہ حکمت بھید کے طور پر بیان کرتے ہیں جو خدا نے جہان کے شروع سے پیشتر ہمارے جلال کے واسطے مقرر کی تھی۔ جسے اِس جہان کے سرداروں میں سے کسی نے نہ سمجھا کیونکہ اگر سمجھتے تو جلال کے خداوند کو مصلوب نہ کرتے" (1-کرنتھیوں 2: 6- 8)۔ یسوع نے انسانی جسم اختیار کیا، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ وہ خدا بھی تھا جسے بنی آدم نہ جانتے تھے۔

اگر لوگ یہ جانتے کہ یسوع جلال کا خداوند ہے تو وہ اُسے مصلوب نہ کرتے۔ پولس نے لکھا "لیکن ہمارے نزدیک تو ایک ہی خدا ہے یعنی باپ جس کی طرف سے سب چیزیں ہیں اور ہم اُسی کےلئے ہیں اور ایک ہی خداوند ہے یعنی یسوع مسیح جس کے وسیلہ سے سب چیزیں موجود ہوئیں اور ہم بھی اُسی کے وسیلہ سے ہیں" (1-کرنتھیوں 8: 6)۔ "اور باپ کا شکر کرتے رہو جس نے ہم کو اِس لائق کیا کہ نور میں مُقدّسوں کے ساتھ میراث کا حصہ پائیں" (کلسیوں 1: 12)۔ اور پولس نے یہ بھی لکھا "خبردار کوئی شخص تم کو اُس فیلسوفی اور لاحاصل فریب سے شکار نہ کر لے جو انسانوں کی روایت اور دُنیوی ابتدائی باتوں کے موافق ہیں نہ کہ مسیح کے موافق۔ کیونکہ الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے۔ اور تم اُسی میں معمور ہو گئے ہو جو ساری حکومت اور اختیار کا سر ہے" (کلسیوں 2: 8- 10)۔

سٹینلے جونز نے کہا "میں ایمان رکھتا ہوں کہ اگر خدا واقعی یسوع مسیح کی طرح تھا، تو وہ بھلا اور قابل بھروسا خدا ہے۔" جب دُنیا تمام قسم کی مشکلات کا سامنا کرتی ہے تو انسان حیران ہوتے اور پوچھتے ہیں "کیا اِس کائنات میں کوئی خدا بھی ہے؟" لیکن جب بے دِل اور خوفزدہ ذہن یسوع مسیح کی طرف رجوع لاتے ہیں تو کہتے ہیں "اگر خدا یسوع مسیح کی طرح کا ہے تو یقیناً وہ ایک سچا خدا ہے۔" مسیحی ہونے کے ناطے ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ایسا ہی ہے۔ وہ اپنی تمام خوبیوں اور صفات میں بالکل مسیح کی مانند ہے۔ قادر مطلق خدا کی کتاب مُقدّس پر ایمان رکھتے ہوئے، ہم یہ کہتے اور خدا کے کلام کے ساتھ متفق ہوتے ہیں کہ یسوع مسیح ہمہ جا (ہر جگہ موجود) خدا ہے; وہ خدا ہمارے ساتھ“ (عمّانُوایل) ہے۔

اگر تمام ذہین، بڑے، بہترین پڑھے لکھے علما خدا کی صفات کی معرفت تک پہنچنے کی کوشش کرنے کےلئے ایک کانفرنس کا اہتمام کرتے، تو وہ کسے کائنات کے خدا اور مالک کے طور پر چنتے؟ یقیناً، اُنہیں یسوع مسیح کی صورت میں تمام اخلاقی اور روحانی صفات مل جاتیں۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ انسانیت کےلئے سب سے بڑی خبر کا بیان 1-تیمتھیس 3: 16 میں کیا گیا ہے "اِس میں کلام نہیں کہ دینداری کا بھید بڑا ہے یعنی وہ جو جسم میں ظاہر ہوا اور روح میں راستباز ٹھہرا اور فرشتوں کو دکھائی دیا اور غیر قوموں میں اُس کی منادی ہوئی اور دُنیا میں اُس پر ایمان لائے اور جلال میں اوپر اُٹھایا گیا۔" غیر مسیحی دُنیا تک پہنچانے کےلئے بہترین خبر یہ ہے کہ قادر مطلق خدا جسے وہ بہت کم جانتے ہیں وہ قادر مطلق خدا ہے جس کی صفات اور خوبیاں یسوع مسیح میں ہیں۔

ج- لفظ "تجویز کرنا" کا اطلاق روح القدس پر بھی نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ روح القدس خدا ہے۔ ذیل میں کتاب مُقدّس کی وہ آیات دی جا رہی ہیں جو روح القدس کی الوہیت کا ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

(1) ہمارے خداوند یسوع مسیح نے سامری عورت سے کہا "مگر وہ وقت آتا ہے بلکہ اب ہی ہے کہ سچے پرستار باپ کی پرستش روح اور سچائی سے کریں گے کیونکہ باپ اپنے لئے ایسے ہی پرستار ڈھونڈتا ہے" (یوحنا 4: 23)۔

(2) پطرس رسول نے حننیاہ سے جس نے جھوٹ بولا یہ کہا "اے حننیاہ! کیوں شیطان نے تیرے دِل میں یہ بات ڈال دی کہ تُو روح القدس سے جھوٹ بولے اور زمین کی قیمت میں سے کچھ رکھ چھوڑے؟ کیا جب تک وہ تیرے پاس تھی تیری نہ تھی؟ اور جب بیچی گئی تو تیرے اختیار میں نہ رہی؟ تُو نے کیوں اپنے دِل میں اِس بات کا خیال باندھا؟ تُو آدمیوں سے نہیں بلکہ خدا سے جھوٹ بولا" (اعمال 5: 3-4)۔

غالباً آپ کا اعتراض تعلیم اسلامی پر مبنی ہے جو دعویٰ کرتی ہے کہ روح القدس جبرائیل فرشتہ ہے۔ یہودیت اور مسیحیت اِس عقیدے کو رد کرتی ہیں کیونکہ جبرائیل فرشتہ ایک مخلوق ہے جبکہ روح القدس خالق ہے۔ کتاب مُقدّس میں لکھا ہے: "خدا کی روح نے مجھے بنایا ہے اور قادرِ مطلق کا دم مجھے زندگی بخشتا ہے" (ایّوب 33: 4)۔ "تُو اپنی روح بھیجتا ہے اور یہ پیدا ہوتے ہیں اور تُو رویِ زمین کو نیا بنا دیتا ہے" (زبور 104: 30)۔

روح القدس کے چند نام یہ ہیں:

٭خداوند کا روح

٭پاک خدا کا روح

٭روح القدس

٭روحِ حق

٭پاکیزگی کا روح

روح القدس پاک تثلیث کا تیسرا اقنوم ہے۔ وہ اپنی تمام صفات کے ساتھ خدا ہے۔

د- بے خطا پوپ: ہم انجیلی اور پروٹسٹنٹ کلیسیائیں اِس عقیدے کو نہیں مانتیں۔ صرف مسیح ہی گناہ سے مبرا واحد شخصیت تھی اور ہے۔ ہم پوپ کی راہنمائی یا اختیار کے تابع نہیں ہیں۔ اچھا ہوتا آپ اُس کے کسی پیروکار سے پوچھتے۔ یہ عقیدہ ہماری کتاب مُقدّس کے بھی خلاف ہے جو یہ کہتی ہے "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں" (رومیوں 3: 23)، اور یہ بھی کہ "اگر ہم کہیں کہ ہم بے گناہ ہیں تو اپنے آپ کو فریب دیتے ہیں اور ہم میں سچائی نہیں۔ اگر اپنے گناہوں کا اقرار کریں تو وہ ہمارے گناہوں کے معاف کرنے اور ہمیں ساری ناراستی سے پاک کرنے میں سچا اور عادل ہے۔ اگر کہیں کہ ہم نے گناہ نہیں کیا تو اُسے جھوٹا ٹھہراتے ہیں اور اُس کا کلام ہم میں نہیں ہے" (1-یوحنا 1: 8- 10)۔

ہ- کلیسیا کا دین بدر کرنے اور گناہوں کو معاف کرنے کا اختیار: نیا عہدنامہ دین بدر کئے جانے پر کوئی تعلیم نہیں دیتا۔ کتاب مُقدّس کلیسیا میں ایمانداروں کو حکم دیتی ہے کہ وہ شریر افراد سے اُس وقت تک صحبت نہ رکھیں جب تک کہ وہ توبہ نہ کریں۔ اِس بارے میں کتاب مُقدّس کی چند آیات ذیل میں دی گئی ہیں:

"لیکن میں نے تم کو درحقیقت یہ لکھا تھا کہ اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بُت پرست یا گالی دینے والا یا شرابی یا ظالم ہو تو اُس سے صحبت نہ رکھو بلکہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔ کیونکہ مجھے باہر والوں پر حکم کرنے سے کیا واسطہ؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ تم تو اندر والوں پر حکم کرتے ہو۔ مگر باہر والوں پر خدا حکم کرتا ہے۔ پس اُس شریر آدمی کو اپنے درمیان سے نکال دو۔" (1-کرنتھیوں 5: 11- 13)

"اے بھائیو! ہم اپنے خداوند یسوع مسیح کے نام سے تمہیں حکم دیتے ہیں کہ ہر ایک ایسے بھائی سے کنارہ کرو جو بے قاعدہ چلتا ہے اور اُس روایت پر عمل نہیں کرتا جو اُس کو ہماری طرف سے پہنچی۔" (2- تھسلنیکیوں 3: 6)

معاف کرنے کے بارے میں ہمارے خداوند یسوع مسیح کی تعلیمات یہ ہیں:

"خبردار رہو! اگر تیرا بھائی گناہ کرے تو اُسے ملامت کر۔ اگر توبہ کرے تو اُسے معاف کر۔ اور اگر وہ ایک دن میں سات دفعہ تیرا گناہ کرے اور ساتوں دفعہ تیرے پاس پھِر آ کر کہے کہ توبہ کرتا ہوں تو اُسے معاف کر۔" (لوقا 17: 3- 4)

"اگر تیرا بھائی تیرا گناہ کرے تو جا اور خلوت میں بات چیت کر کے اُسے سمجھا۔ اگر وہ تیری سُنے تو تُو نے اپنے بھائی کو پا لیا۔ اور اگر نہ سُنے تو ایک دو آدمیوں کو اپنے ساتھ لے جا تا کہ ہر ایک بات دو تین گواہوں کی زبان سے ثابت ہو جائے۔ اگر وہ اُن کی بھی سُننے سے انکار کرے تو کلیسیا سے کہہ اور اگر کلیسیا کی سُننے سے بھی انکار کرے تو تُو اُسے غیر قوم والے اور محصول لینے والے کے برابر جان۔ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جو کچھ تم زمین پر باندھو گے وہ آسمان پر بندھے گا اور جو کچھ تم زمین پر کھولو گے وہ آسمان پر کھلے گا۔" (متی 18: 15- 18)

اور مُقدّس یعقوب نے اِس بارے میں یہ لکھا:

"اے میرے بھائیو! اگر تم میں کوئی راہِ حق سے گمراہ ہو جائے اور کوئی اُس کو پھیر لائے۔ تو وہ یہ جان لے کہ جو کوئی کسی گنہگار کو اُس کی گمراہی سے پھیر لائے گا۔ وہ ایک جان کو موت سے بچائے گا اور بہت سے گناہوں پر پردہ ڈالے گا۔" (یعقوب 5: 19- 20)

و- کونسلوں کو کس نے اختیار دیا کہ وہ عیسیٰ، مریم اور روح القدس کی الوہیت (خدا ہونے) کو تجویز کریں؟ اگر کلیسیائی کونسلوں کے پاس اختیار ہے کہ وہ عیسیٰ، مریم اور روح القدس کی الوہیت (خدا ہونے) کا چناﺅ کریں، تو کیا اُن کے پاس یہ حق نہیں ہے کہ اُن کی الوہیت سے اُنہیں محروم کر دیں اوراُن کی جگہ کسی اَور کا چناﺅ کریں؟

آپ کے سوال کا یہ حصہ خداوند تعالیٰ کے کلام کی واضح تضحیک ہے۔ لازم ہے کہ ہم خدا کے کلام کی پیروی کریں جو یہ بیان کرتا ہے "مبارک ہے وہ آدمی جو شریروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹھابازوں کی مجلس میں نہیں بیٹھتا" (زبور 1:1)۔ کتاب مُقدّس ہمیں حکم دیتی ہے کہ ٹھٹھابازوں کے ساتھ اپنے تمام معاملات اور رفاقت کو ختم کر دیں۔

سوال-3

کیا تثلیث کا ایک ہی اقنوم مصلوبیت میں سے گزرا اور باقی اقانیم اُس سے متاثر نہیں ہوئے؟

جواب:

ایک مذہبی مسلمان کی طرف سے جس نے قرآن پڑھ رکھا ہو، اِس قسم کے سوال کو سُننا نہایت ہی حیران کُن امر ہے۔ قرآن ہمیں یسوع مسیح کی مصلوبیت کے بارے میں یہودیوں کا واقعہ بیان کرتا ہے۔ قرآن میں لکھا ہے "اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو قتل کر دیا ہے" (سورہ نسا 4: 157)۔

تمام دُنیا کی نجات کی خاطر باپ اور بیٹے کے مابین مخلصی کے عہد کے مطابق تثلیث کا دوسرا اقنوم مصلوبیت میں سے گزرا۔ وہ عہد ہمارے ادراک سے پرے ہے۔ ہمیں مخلصی کی اِس تعلیم کو قبول کرنا ہے، کیونکہ یہ کتاب مُقدّس کی بنیادی بات ہے۔ ہاں، ہم ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ یہ خدا الوہیت کی تمام خوبیوں اور صفات کے ساتھ ایک ہستی ہے۔ اِس واحد خدا میں تین اقانیم ہیں، جو قدرت اور جلال میں برابر ہیں۔ اِس بڑے بھید کی وضاحت ہماری قابلیت سے پرے ہے۔ یہ عقیدہ مسیحی ایمان کا ایک حصہ ہے کیونکہ قادر مطلق خدا کی کتاب مُقدّس نے ہر ایک مسیحی ایماندار کو اِس کی تعلیم دی ہے۔

پولس رسول نے کہا:

"اب خدا جو تم کو میری خوشخبری یعنی یسوع مسیح کی منادی کے موافق مضبوط کر سکتا ہے اُس بھید کے مکاشفہ کے مطابق جو ازل سے پوشیدہ رہا۔" (رومیوں 16: 25)

"اور سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خدا میں پوشیدہ رہا اُس کا کیا انتظام ہے۔" (افسیوں 3: 9)

"یعنی اُس بھید کی جو تمام زمانوں اور پشتوں سے پوشیدہ رہا لیکن اب اُس کے اُن مُقدّسوں پر ظاہر ہوا۔" (کلسیوں 1: 26)

حتیٰ کہ مسیح کے تجسم سے پہلے بھی اِس بات کا ذِکر ملتا ہے کہ مخلصی کا وعدہ خدا تعالیٰ کے منصوبہ میں تھا۔ کتاب مُقدّس ہمیں مخلصی کے منصوبے کا ایک باقاعدہ خاکہ پیش کرتی ہے جسے یسوع مسیح نے پورا کرنا تھا تا کہ جو کوئی اُس پر ایمان لائے وہ نجات پائے:

الف- اُس نے ہماری صورت اختیار کی اور ایک کنواری سے پیدا ہوا۔ کتاب مُقدّس میں لکھا ہے:

"پس اُس کو سب باتوں میں اپنے بھائیوں کی مانند بننا لازم ہوا تا کہ اُمت کے گناہوں کا کفارہ دینے کے واسطے اُن باتوں میں جو خدا سے علاقہ رکھتی ہیں ایک رحمدل اور دیانتدار سردار کاہن بنے۔" (عبرانیوں 2: 17)

"کیونکہ ہمارا ایسا سردار کاہن نہیں جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد نہ ہو سکے بلکہ وہ سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا۔ پس آﺅ ہم فضل کے تخت کے پاس دلیری سے چلیں تا کہ ہم پر رحم ہو اور وہ فضل حاصل کریں جو ضرورت کے وقت ہماری مدد کرے۔" (عبرانیوں 4: 15- 16)

ب- اُسے شریعت کے تحت پیدا ہونا پڑا۔

"اِسی طرح ہم بھی جب بچّے تھے تو دُنیوی ابتدائی باتوں کے پابند ہو کر غلامی کی حالت میں رہے۔ لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔" (گلتیوں 4: 3- 4)

"یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے۔" (متی 5: 17- 18)

ج- اُس نے اپنے آپ کو دُنیا کے تمام گناہوں کی خاطر ایک کامل کفارہ کے طور پر پیش کیا:

"ہمارے پیغام پر کون ایمان لایا! اور خداوند کا بازو کس پر ظاہر ہوا؟ پر وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح اور خشک زمین سے جڑ کی مانند پھوٹ نکلا ہے۔ نہ اُس کی کوئی شکل و صورت ہے نہ خوبصورتی اور جب ہم اُس پر نگاہ کریں تو کچھ حُسن و جمال نہیں کہ ہم اُس کے مشتاق ہوں۔ وہ آدمیوں میں حقیر و مردود، مردِ غمناک اور رنج کا آشنا تھا۔ لوگ اُس سے گویا روپوش تھے اُس کی تحقیر کی گئی اور ہم نے اُسکی کچھ قدر نہ جانی۔ تو بھی اُس نے ہماری مشقتیں اُٹھا لیں اور ہمارے غموں کو برداشت کیا۔ پر ہم نے اُسے خدا کا مارا کُوٹا اور ستایا ہوا سمجھا۔ حالانکہ وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا۔ وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاﺅں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولتمندوں کے ساتھ ہوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کےلئے گذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمر دراز ہو گی۔ اپنی ہی جان کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دوںگا اور وہ لوٹ کا مال زور آوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔" (یسعیاہ 53: 1- 12)

"جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔" (2-کرنتھیوں 5: 21)

"مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے۔" (گلتیوں 3: 13)

"اور محبت سے چلو۔ جیسے مسیح نے تم سے محبت کی اور ہمارے واسطے اپنے آپ کو خوشبو کی مانند خدا کی نذر کر کے قربان کیا۔" (افسیوں 5: 2)

خدا باپ نے ایک بدن یا آدم کے بدن کی طرح کا مقدِس تیار کرنے کا وعدہ کیا، ایک ایسا بدن جو نہ سڑے گا اور نہ اُس میں کوئی نقص ہو گا "اِسی لئے وہ دُنیا میں آتے وقت کہتا ہے کہ تُو نے قربانی اور نذر کو پسند نہ کیا بلکہ میرے لئے ایک بدن تیار کیا" (عبرانیوں 10: 5)۔

خدا تعالیٰ نے اُس بدن کو روح القدس اور جلال و قدرت سے معمور کیا۔ باپ نے ہمیشہ بیٹے کے ساتھ کا اور شریر کے خلاف اُس کی لڑائی میں مدد فراہم کرنے اور شیطان کو اُس کے پاﺅں کے نیچے کچلنے کا وعدہ کیا۔ اُس نے بیٹے کو آسمان اور زمین کا کُل اختیار دیا "یسوع نے پاس آ کر اُن سے باتیں کیں اور کہا کہ آسمان اور زمین کا کُل اختیار مجھے دیا گیا ہے" (متی 28: 18)۔

فلپیوں 2: 6- 18 میں لکھا ہے:

"اُس نے اگرچہ خدا کی صورت پر تھا خدا کے برابر ہونے کو قبضہ میں رکھنے کی چیز نہ سمجھا۔ بلکہ اپنے آپ کو خالی کر دِیا اور خادِم کی صورت اِختیار کی اور اِنسانوں کے مشابہ ہو گیا۔ اور اِنسانی شکل میں ظاہر ہو کر اپنے آپ کو پست کر دِیا اور یہاں تک فرمانبردار رہا کہ مَوت بلکہ صلِیبی مَوت گوارا کی۔ اِسی واسطے خدا نے بھی اُسے بہت سر بلند کیا اور اُسے وہ نام بخشا جو سب ناموں سے اعلیٰ ہے۔ تا کہ یسوع کے نام پر ہر ایک گُھٹنا ٹِکے۔ خواہ آسمانیوں کا ہو خواہ زمِینیوں کا۔ خواہ اُن کا جو زمِین کے نیچے ہیں۔ اور خدا باپ کے جلال کےلئے ہر ایک زبان اِقرار کرے کہ یسوع مسِیح خداوند ہے۔ پس اَے میرے عزِیزو! جِس طرح تم ہمیشہ سے فرمانبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح اب بھی نہ صِرف میری حاضری میں بلکہ اِس سے بہت زِیادہ میری غَیر حاضری میں ڈرتے اور کانپتے ہوئے اپنی نجات کا کام کِئے جاﺅ۔ کیونکہ جو تم میں نِیّت اور عمل دونوں کو اپنے نیک اِرادہ کو انجام دینے کےلئے پَیدا کرتا ہے وہ خدا ہے۔ سب کام شِکایت اور تکرار بغَیر کِیا کرو۔ تا کہ تم بے عَیب اور بھولے ہو کر ٹیڑھے اور کجرَو لوگوں میں خدا کے بے نقص فرزند بنے رہو (جِن کے درمِیان تم دُنیا میں چراغوں کی طرح دِکھائی دیتے ہو۔ اور زِندگی کا کلام پیش کرتے ہو) تا کہ مسِیح کے دِن مجھے فخر ہو کہ نہ میری دَوڑ دھُوپ بے فائِدہ ہوئی نہ میری محنت اکارت گئی۔ اور اگر مجھے تمہارے اِیمان کی قربانی اور خِدمت کے ساتھ اپنا خون بھی بہانا پڑے تَو بھی خوش ہوں اور تم سب کے ساتھ خوشی کرتا ہوں۔ تم بھی اِسی طرح خوش ہو اور میرے ساتھ خوشی کرو۔"

یوحنا 5: 22 میں لکھا ہے: "کیونکہ باپ کسی کی عدالت بھی نہیں کرتا بلکہ اُس نے عدالت کا سارا کام بیٹے کے سپرد کیا ہے۔"

خدا تعالیٰ نے بیٹے کو ایمانداروں کی نئی پیدایش کےلئے، اُنہیں منور کرنے اور راہنمائی فراہم کرنے، اُنہیں تسلی دینے اور اُن کی تقدیس کرنے کےلئے روح القدس بھیجنے کا تمام اختیار بخشا ہے: "لیکن جب وہ یعنی روحِ حق آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا۔ اِس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آیندہ کی خبریں دے گا" (یوحنا 16: 13)۔

"چنانچہ تُو نے اُسے ہر بشر پر اختیار دیا ہے تا کہ جنہیں تُو نے اُسے بخشا ہے اُن سب کو وہ ہمیشہ کی زندگی دے۔" (یوحنا 17: 2)

"اُس نے یہ بات اُس روح کی بابت کہی جسے وہ پانے کو تھے جو اُس پر ایمان لائے کیونکہ روح اب تک نازل نہ ہوا تھا اِس لئے کہ یسوع ابھی اپنے جلال کو نہ پہنچا تھا۔" (یوحنا 7: 39)

"پس خدا کے دہنے ہاتھ سے سر بلند ہو کر اور باپ سے وہ روح القدس حاصل کر کے جس کا وعدہ کیا گیا تھا اُس نے یہ نازل کیا جو تم دیکھتے اور سُنتے ہو۔" (اعمال 2: 33)

بیٹے کے ذریعے باپ کو جلال ملا، اور وہ اُس کے ذریعے اور اُس میں، اور اُس کی کلیسیا میں ظاہر ہوا۔ خدا کی ذات کی تمام صفات مسیح میں تھیں۔ "تا کہ ہم جو پہلے سے مسیح کی اُمید میں تھے اُس کے جلال کی ستایش کا باعث ہوں" (افسیوں 1: 12)۔ "اپنی ہی جان کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا" (یسعیاہ 53: 11)۔

مخلصی تثلیث کے اقانیم کے درمیان اتفاق کا نتیجہ ہے۔ کتاب مُقدّس تصدیق کرتی ہے کہ فدیہ کے ذریعے مخلصی کا کام خدا بیٹے کے تجسم سے پہلے خدا کے ذہن میں پورا ہو چکا تھا۔

"چنانچہ اُس نے اپنی مرضی کے بھید کو اپنے اُس نیک ارادہ کے موافق ہم پر ظاہر کیا۔ جسے اپنے آپ میں ٹھہرا لیا تھا۔ تا کہ زمانوں کے پورے ہونے کا ایسا انتظام ہو کہ مسیح میں سب چیزوں کا مجموعہ ہو جائے۔ خواہ وہ آسمان کی ہوں خواہ زمین کی۔ اُسی میں ہم بھی اُس کے ارادہ کے موافق جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے پیشتر سے مقرر ہو کر میراث بنے" (افسیوں 1: 9- 11)۔

"اور سب پر یہ بات روشن کروں کہ جو بھید ازل سے سب چیزوں کے پیدا کرنے والے خدا میں پوشیدہ رہا اُس کا کیا انتظام ہے تا کہ اب کلیسیا کے وسیلہ سے خدا کی طرح طرح کی حکمت اُن حکومت والوں اور اختیار والوں کو جو آسمانی مقاموں میں ہیں معلوم ہو جائے۔ اُس ازلی ارادہ کے مطابق جو اُس نے ہمارے خداوند مسیح یسوع میں کیا تھا" (افسیوں 3: 9- 11)۔

فدیہ کے ذریعے خدا تعالیٰ کے نجات کے منصوبہ کے تین مضمرات ہیں:

الف- قربانی کا چناﺅ اور مقرر کیا جانا۔

ب- اُس کے حصول کے موافق ذریعہ کی تیاری۔

ج- اپنے حتمی مقصد کےلئے اُس ذریعے کا استعمال۔ اِن سب کی تکمیل مخلصی کے منصوبے میں ہوئی۔ خدا نے ایک باترتیب کائنات بنائی۔ ایک بے خبر نگاہ کےلئے اجرام فلک بغیر کسی ترتیب کے ہوتے ہیں، لیکن ایک ماہر فلکیات کی نگاہ میں وہ حیرت انگیز ہم آہنگی کا اظہار کرتے ہیں۔

تمام جلال خدا تعالیٰ کا ہے، وہ اپنی تمام خلق میں نظم و ضبط کا خداوند ہے۔ اگر وہ فطرت میں اِس سب کو ممکن کر سکتا ہے تو روحانی عالم میں وہ زیادہ اعلیٰ اور اُتّم کام کر سکتا ہے۔ کتاب مُقدّس بیان کرتی ہے کہ نظام خداوندی فضل پر مبنی ہے۔ کتاب مُقدّس بیان کرتی ہے کہ خدا نے ہر ایک چیز کو اپنی مرضی کی مصلحت سے پیدا کیا "اُسی میں ہم بھی اُس کے ارادہ کے موافق جو اپنی مرضی کی مصلحت سے سب کچھ کرتا ہے پیشتر سے مُقرر ہو کر میراث بنے" (افسیوں 1: 11)۔

لازم ہے کہ ہم کتاب مُقدّس کو پڑھیں اور جو کچھ خدا تعالیٰ روحانی معاملات کے بارے میں کہتا ہے اُسے دیکھیں، اور تجربہ سے سمجھیں کہ فدیہ و مخلصی کا کیا مطلب ہے۔ اِس بارے میں شک و شبہ نہیں کہ نجات کی ضرورت عالمگیر ہے۔ پولس رسول نے لکھا "اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا اور خدا کے جلال سے محروم ہیں" (رومیوں 3: 23)۔

پولس رسول سے بہت عرصہ پہلے داﺅد نبی نے کہا "وہ سب کے سب گمراہ ہو گئے۔ وہ باہم نجس ہو گئے۔ کوئی نیکو کار نہیں۔ ایک بھی نہیں" (زبور 14: 3)۔

اور یسعیاہ نبی نے لکھا "ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بدکرداری اُس پر لادی" (یسعیاہ 53: 6)۔

اگر نجات انسان کی زندگی اور اُس کی ابدیت کےلئے اِس قدر سنجیدہ امر ہے تو ہمیں اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہئے "نجات ہے کیا؟ کس چیز سے ہم بچائے گئے ہیں؟" یہ بالکل واضح ہے کہ مسیحیت ایک راہِ نجات ہے۔ مسیحیت کا بانی اور راہنما خداوند یسوع مسیح ہے جو تمام زمانوں کے ایمانداروں کا نجات دہندہ ہے۔

انجیل مُقدّس اِس سوال کا جواب دیتی ہے کہ یہ گناہوں سے نجات ہے۔ فرشتہ نے مُقدّسہ مریم کی بابت کہا "اُس کے بیٹا ہو گا اور تُو اُس کا نام یسوع رکھنا کیونکہ وہی اپنے لوگوں کو اُن کے گناہوں سے نجات دے گا" (متی 1: 21)۔

یوحنا بپتسمہ دینے والے نے یسوع کے بارے میں یہ بیان کیا "دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (یوحنا 1: 29)۔

مسیح یسوع نے خود اپنے بارے میں کہا "کیونکہ ابنِ آدم کھوئے ہوﺅں کو ڈھونڈنے اور نجات دینے آیا ہے" (لوقا 19: 10)۔ پولس رسول نے لکھا "یہ بات سچ اور ہر طرح سے قبول کرنے کے لائق ہے کہ مسیح یسوع گنہگاروں کو نجات دینے کےلئے دُنیا میں آیا" (1-تیمتھیس 1: 15)۔

کتاب مُقدّس سکھاتی ہے کہ انسانی نجات فدیہ و مخلصی کی بنیاد پر قائم ہے۔ اِس لئے، نجات محض ایک فلسفہ نہیں ہے، بلکہ وہ سب جو ایمان لاتے ہیں اُن کے گناہوں کو دُور کرنے کا یہ حقیقت میں ناگزیر طور پر واحد ذریعہ ہے۔ ہر وہ نظریہ یا عقیدہ جو اِس بنیاد پر قائم نہیں وہ غلط، بیکار اور ناقص ہے۔

سوال-4

کیوں عیسیٰ، آدم کے گناہ کے ذمہ دار تھے، جیسے کہ آپ دعویٰ کرتے ہیں، اور کیوں اُنہیں بنی آدم کے گناہوں کےلئے کفارہ دینے کی ضرورت تھی؟

جواب:

کوئی بھی فرد اُس وقت تک سچائی کو سمجھ نہیں سکتا جب تک کہ وہ حقیقی نام استعمال نہ کرے۔ سو، میں آپ کو یاد کرانا چاہوں گا کہ مسیح کا نام یسوع ہے نہ کہ عیسیٰ۔ اِسی لئے خداوند کے فرشتہ جبرائیل نے مُقدّسہ کنواری مریم سے کہا: "اور دیکھ تُو حاملہ ہو گی اور تیرے بیٹا ہو گا۔ اُس کا نام یسوع رکھنا۔ وہ بزرگ ہو گا اور خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا اور خداوند خدا اُس کے باپ داﺅد کا تخت اُسے دے گا" (لوقا 1: 31- 32)۔

کتاب مُقدّس سکھاتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو راستبازی اور پاکیزگی میں اپنی صورت پر پیدا کیا۔ اُس نے انسان کو ابدی زندگی کا ایک عہد بخشا جو اِس بات کے ساتھ مشروط تھا کہ انسان اُس کے احکام پر عمل پیرا ہو۔ غور کیجئے کہ پیدایش کی کتاب میں کیا لکھا ہے: "اور خدا نے انسان کو اپنی صورت پر پیدا کیا۔ خدا کی صورت پر اُس کو پیدا کیا۔ نر و ناری اُن کو پیدا کیا۔ اور خدا نے اُن کو برکت دی اور کہا کہ پھلو اور بڑھو اور زمین کو معمور و محکوم کرو اور سمندر کی مچھلیوں اور ہوا کے پرندوں اور کُل جانوروں پر جو زمین پر چلتے ہیں اختیار رکھو" (پیدایش 1: 27- 28)۔ "اور خداوند خدا نے آدم کو لے کر باغِ عدن میں رکھا کہ اُس کی باغبانی اور نگہبانی کرے۔ اور خداوند خدا نے آدم کو حکم دیا اور کہا کہ تُو باغ کے ہر درخت کا پھل بے روک ٹوک کھا سکتا ہے۔ لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2: 15 -17)۔

آدم کچھ عرصہ تو خدا کے فردوس میں بے گناہی کی حالت میں رہا، اور اُسے خداوند خدا کے ساتھ روحانی رفاقت حاصل تھی۔ روحانی رفاقت نے آدم کے دِل و دماغ کو حقیقی خوشی سے معمور کر دیا۔

آدم سادہ دِل تھا; اور سادہ دِلی ایک فرد کو خدا تعالیٰ کے نزدیک لے کر آتی ہے۔ اگرچہ وہ ایک راستباز شخص تھا، لیکن خداوند خدا نے اِس بات کی اجازت دی کہ وہ آزمایا جائے تا کہ پتا چلے کہ کیا آدم حکم خداوندی کی پیروی کرنے سے اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے یا نہیں۔ حکم خداوندی نے جو چیز آدم کےلئے اچھی تھی اور جو منع تھی اُس کے درمیان ایک حد قائم کر دی۔ باالفاظ دیگر، خدا کا مقصد ابوالبشر آدم کو یہ سکھانا تھا کہ صحیح اور غلط کے درمیان ایک حد یا ایک بڑی خلیج موجود ہے۔

پھر، آزمایش شیطان کی طرف سے آئی جس نے حوا سے ایک سادہ سا سوال پوچھا، لیکن یہ پُرفریب تھا۔ اُس نے حوا سے پوچھا "کیا واقعی خدا نے کہا ہے کہ باغ کے کسی درخت کا پھل تم نہ کھانا؟" اور یہ ایسے تھا جیسے وہ کہہ رہا تھا: "کیا یہ مناسب ہے کہ خدا جو تم سے بڑی محبت رکھتا ہے اور جس نے تمہیں اپنی بھلائی سے گھیر رکھا ہے اور جس نے تمہیں یہ سب خوشی بخشی - کیا وہ تمہیں اُن سب درختوں میں سے کھانے سے منع کرے گا جو اُس نے تمہیں دیئے ہیں؟"

حوا نے شیطان کے مکارانہ الفاظ سُنے اور جواب دیا "باغ کے درختوں کا پھل تو ہم کھاتے ہیں۔ پر جو درخت باغ کے بیچ میں ہے اُس کے پھل کی بابت خدا نے کہا ہے کہ تم نہ تو اُسے کھانا اور نہ چھونا ورنہ مر جاﺅ گے" (پیدایش 3: 2- 3)۔ غور کیجئے کہ حوا نے کیسے حکم خداوندی کے الفاظ میں اضافہ کیا "اور نہ چھونا۔" اُس نے ایک ایسی بات کا ذِکر کیا خدا نے نہیں کہی تھی۔ جو کچھ شیطان نے پہلے کہا تھا، اب وہ اُسے پھیلا کر بیان کرتا ہے تا کہ حوا خدا کی بھلائی پر مزید شک کرے "بلکہ جانتا ہے کہ جس دن تم اُسے کھاﺅ گے تمہاری آنکھیں کُھل جائیں گی اور تم خدا کی مانند نیک و بد کے جاننے والے بن جاﺅ گے" (پیدایش 3: 5)۔

نتیجہ یہ نکلا کہ حوا نے دھوکے باز دشمن کی بات کو سُنا اور گناہ میں گر گئی۔ "عورت نے جو دیکھا کہ وہ درخت کھانے کےلئے اچھا اور آنکھوں کو خوشنما معلوم ہوتا ہے اور عقل بخشنے کےلئے خوب ہے تو اُس کے پھل میں سے لیا اور کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا اور اُس نے کھایا۔ تب دونوں کی آنکھیں کُھل گئیں اور اُن کو معلوم ہوا کہ وہ ننگے ہیں اور اُنہوں نے انجیر کے پتوں کو سی کر اپنے لئے لُنگیاں بنائیں" (پیدایش 3: 6- 7)۔

نسل انسانی کے اوّلین ماں باپ اِس طرح سے گناہ میں گر گئے۔ حوا گناہ میں اِس لئے گر گئی کہ اُس نے خدا کی وفاداری اور بھلائی پر شک کیا اور اُس کے حکم کی نافرمانی کی۔ ایسا اِس لئے ہوا کہ حوا خدا تعالیٰ کی مانند بننا چاہتی تھی۔ نہ صرف اُس نے خود خوشی سے حکم خداوندی کو توڑا بلکہ اپنے شوہر کو بھی اُس میں شامل کیا، اور خدا کی نافرمانی کرنے کے نتیجے میں دونوں گراوٹ کا شکار ہوئے اور دونوں نے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا گناہ کیا۔ گناہ کا مطلب ہے "نشانہ خطا ہو جانا۔" "جو کوئی گناہ کرتا ہے وہ شرع کی مخالفت کرتا ہے اور گناہ شرع کی مخالفت ہی ہے" (1-یوحنا 3: 4)۔ "کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے" (رومیوں 6: 23)۔

خدا تعالیٰ نے اپنے کلام کے مطابق اُنہیں سزا دی "لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2: 17)۔

یہاں موت کا مطلب قبر میں جسمانی موت نہیں ہے، بلکہ روحانی موت ہے جو پاک خدا کی رفاقت سے روح کی جدائی ہے۔ اِس کا نتیجہ انسانی روح کا ابدی دُکھ اور تکلیف تھا۔ سزا دونوں کو ملنی تھی۔ "اور آدم سے اُس نے کہا چونکہ تُو نے اپنی بیوی کی بات مانی اور اُس درخت کا پھل کھایا جس کی بابت میں نے تجھے حکم دیا تھا کہ اُسے نہ کھانا اِس لئے زمین تیرے سبب سے لعنتی ہوئی۔ مُشقت کے ساتھ تُو اپنی عمر بھر اُس کی پیداوار کھائے گا۔ اور وہ تیرے لئے کانٹے اور اُونٹکٹارے اُگائے گئی اور تُو کھیت کی سبزی کھائے گا۔ تُو اپنے منہ کے پسینے کی روٹی کھائے گا جب تک کہ زمین میں تُو پھر لوٹ نہ جائے اِس لئے کہ تُو اُس سے نکالا گیا ہے کیونکہ تُو خاک ہے اور خاک میں پھر لوٹ جائے گا" (پیدایش 3: 17- 19)۔

آخرکار، خداوند تعالیٰ نے آدم اور حوا کو باغِ عدن سے باہر نکال دیا۔ فردوس سے باہر اُنہوں نے دُکھ اُٹھایا اور اُن کی اولاد بھی تھی۔ نہ صرف وہ خود گنہگار بنے بلکہ کتاب مُقدّس بیان کرتی ہے کہ "پس جس طرح ایک آدمی کے سبب سے گناہ دُنیا میں آیا اور گناہ کے سبب سے موت آئی اور یوں موت سب آدمیوں میں پھیل گئی اِس لئے کہ سب نے گناہ کیا" (رومیوں 5: 12)۔

آپ نے عبث کہا کہ آدم کا گناہ ہم تک نہیں آیا۔ کیا جناب آدم اُس وقت تمام نسل انسانی کے ترجمان نہ تھے جب اُنہوں نے خدا تعالیٰ سے عہد باندھا؟ وہ سب وعدے جو خدا نے آدم کو دیئے وہ اُن کی نسل کے ساتھ بھی تھے۔

داﺅد نبی نے اِس بات کی تصدیق کی جب یہ کہا کہ "دیکھ میں نے بدی میں صورت پکڑی اور میں گناہ کی حالت میں ماں کے پیٹ میں پڑا" (زبور 51: 5)۔

ایک مشہور انگریز مصنف نے کہا "آدمی اب بھی وہی ہے، خونی، ظالم; اور پھر جو کچھ اُس نے کیا اُس پر روتا ہے اور جن کو نشانہ ستم بناتا ہے اُن کی مقبرے تعمیر کرتا ہے۔ ...انسان کےلئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنی روح میں اندر گہرے طور پر جھانک کر دیکھے اور جانے کہ گناہ کی شریعت اُس میں بسیرا کرتی ہے۔"

داﺅد نبی نے کہا "احمق نے اپنے دِل میں کہا کہ کوئی خدا نہیں۔ وہ بگڑ گئے۔ اُنہوں نے نفرت انگیز کام کئے ہیں۔ کوئی نیکو کار نہیں" (زبور 14: 1)۔

یسعیاہ نبی نے انسان کے بارے میں بیان کیا "اُن کے جالے سے پوشاک نہیں بنے گی۔ وہ اپنی دستکاری سے مُلبّس نہ ہوں گے۔ اُن کے اعمال بدکرداری کے ہیں اور ظلم کا کام اُن کے ہاتھوں میں ہے۔ اُن کے پاﺅں بدی کی طرف دوڑتے ہیں اور وہ بے گناہ کا خون بہانے کےلئے جلدی کرتے ہیں۔ اُن کے خیالات بدکرداری کے ہیں۔ تباہی اور ہلاکت اُن کی راہوں میں ہے۔ وہ سلامتی کا راستہ نہیں جانتے اور اُن کی روِش میں انصاف نہیں۔ وہ اپنے لئے ٹیڑھی راہ بناتے ہیں۔ جو کوئی اُس میں جائے گا سلامتی کو نہ دیکھے گا" (یسعیاہ 59: 6- 8)۔

یرمیاہ، رونے والے نبی نے انسانی دِل کی تصویر یوں بیان کی "دِل سب چیزوں سے زیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟" (یرمیاہ 17: 9)۔

جرم کی تاریخ پر نظر دوڑانے سے یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ انسان اپنی نیک فطرت کھو بیٹھے ہیں، اور اب اُس بگڑی فطرت کے حامل ہیں جو پہلے کئے گئے جرم سے منتقل ہوئی کہ جب قائن نے اپنے بھائی ہابل کو قتل کر دیا۔ اُس نے اُسے کیوں قتل کیا؟ کیا ایسا اِس لئے نہیں ہے کہ ہماری فطرت بُری ہے؟ کیوں ایک قوم دوسری قوم کے خلاف جنگ لڑتی ہے؟ ایسا اِس لئے ہے کہ انسانی دِل شریر ہے۔

پولس رسول نے کہا "کیونکہ گناہ کی مزدوری موت ہے مگر خدا کی بخشش ہمارے خداوند مسیح یسوع میں ہمیشہ کی زندگی ہے" (رومیوں 6: 23)۔

حزقی ایل نبی نے کہا "جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اُسی کےلئے ہے اور شریر کی شرارت شریر کےلئے" (حزقی ایل 18: 20)۔

جب آدم اور حوا گراوٹ کا شکار ہوئے تو وہ روحانی طور پر مر گئے۔ وہ روحانی طور پر خدا سے جدا ہو گئے۔ کلونیوس نے کہا "... آدم اور حوا گناہ میں گرنے کی وجہ سے خدا سے جدا ہو گئے۔ وہ محبت کرنے والے خالق سے اپنی روحانی رفاقت کھو بیٹھے۔ یہاں تک کہ اُنہیں اُس کی حضوری میں شرمندگی محسوس ہوئی۔"

"اور اُنہوں نے خداوند خدا کی آواز جو ٹھنڈے وقت باغ میں پھرتا تھا سُنی اور آدم اور اُس کی بیوی نے آپ کو خداوند خدا کے حضور سے باغ کے درختوں میں چھپایا۔" (پیدایش 3: 8)

وہ نہ صرف شرمندہ ہوئے بلکہ خوفزدہ بھی ہوئے۔ "بلکہ تمہاری بدکرداری نے تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان جدائی کر دی ہے اور تمہارے گناہوں نے اُسے تم سے روپوش کیا ایسا کہ وہ نہیں سُنتا" (یسعیاہ 59: 2)۔

اِس کا نتیجہ ہمارے اوّلین والدین کےلئے خوفناک عدالت کی صورت میں نکلا۔ "لیکن نیک و بد کی پہچان کے درخت کا کبھی نہ کھانا کیونکہ جس روز تُو نے اُس میں سے کھایا تُو مرا" (پیدایش 2: 17)۔

کیا انسانیت اپنی اُمید کھو بیٹھی؟ کیا انسان کی اُمید اُس وقت مر گئی جب وہ فردوس سے نکالا گیا؟ نہیں! اُمید ختم نہیں ہوئی۔ ہمارا خدا محبت ہے، اور وہ راست منصف ہے۔ اپنی ابدی محبت کے ذریعے خدا نے آدم کو بلایا "آدم، تُو مجھ سے کیوں دُور بھاگ گیا ہے؟ تجھے تو میری ساتھ مل کر خوشی ہوتی تھی۔" چونکہ خدا نے انسان کو اپنی صورت پر تخلیق کیا تھا اِس لئے خدا اپنی بڑی محبت میں انسان کو اپنی رفاقت میں بحال کرنا چاہتا تھا۔ وقت پر، خدا نے بنی آدم کےلئے نجات و مخلصی کے بڑے منصوبے کو تیار کیا۔

خدا کی محبت کی مداخلت

خدا اپنی تمام خوبیوں اور صفات میں کامل ہے۔ وہ عادل بھی ہے اور سچائی بھی۔

سزا کے طور پر انسان کو ابدی موت ہمیشہ کےلئے سہنی تھی۔ خدا صرف عادل اور صادق ہی نہیں ہے، بلکہ محبت بھی ہے۔ اُس کی مغفرت کی کوئی حد نہیں۔ اُس کی محبت عجیب ہے جو ہر رنگ و نسل کے انسان کےلئے ہے۔ ہمارا خالق اپنی شفقت و رحمت میں انتہائی غنی ہے۔ اُس کی بابت یرمیاہ نبی نے لکھا "خداوند قدیم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور کہا کہ میں نے تجھ سے ابدی محبت رکھی اِسی لئے میں نے اپنی شفقت تجھ پر بڑھائی" (یرمیاہ 31: 3)۔

خدا کی عظیم محبت نے انسان کےلئے نجات کو تیار کیا تا کہ وہ مخلصی پائے اور ہمیشہ جلال میں زندگی بسر کرے۔ حزقی ایل نبی نے لکھا "تُو اُن سے کہہ خداوند خدا فرماتا ہے مجھے اپنی حیات کی قسم شریر کے مرنے میں مجھے کچھ خوشی نہیں بلکہ اِس میں ہے کہ شریر اپنی راہ سے باز آئے اور زندہ رہے۔ اے بنی اسرائیل باز آﺅ۔ تم اپنی روِش سے باز آﺅ۔ تم کیوں مرو گے؟" (حزقی ایل 33: 11)۔

کتاب مُقدّس سکھاتی ہے کہ خدا راست ہے اور اُس کے انصاف کا تقاضا ہے کہ ہر گنہگار سزا پائے۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح نے ہمارا تمام قرض چُکا دیا اور محبت کرنے والے خدا کے حضور ہماری جگہ اپنا آپ قربان کر دیا۔ صلیب پر مسیح کی قربانی کی بدولت، خدا تعالیٰ کے انصاف کا تقاضا پورا ہوا تا کہ وہ گنہگاروں کو راستبازی بخشے۔

ایک نامور وکیل نے ایک مجرم کے دفاع میں اپنی دلیل کو مندرجہ ذیل بیان دے کر یوں ختم کیا کہ "میں نے ایک کتاب پڑھی جِس میں خدا نے اَبدی مشورت میں عدل اور سچائی سے پوچھا کہ کیا وہ انسان کو خلق کرے؟ عدل نے جواب دیا: انسان کی تخلیق نہ کی جائے کیونکہ وہ تیرے بنائے ہوئے تمام قوانین، نظم و ضبط اور اصولوں کو پامال کرے گا۔ سچائی نے جواب دیا کہ انسان کو نہ بنایا جائے کیونکہ اس کی حالت بگڑ جائے گی اور وہ ہمیشہ جھوٹ اور بطالت کی پیروی کرے گا۔ پھر محبت نے کہا: مجھے علم ہے کہ گرچہ انسان بد نصیب اور آفت کا مارا ہو جائے گا مگر میں اس کی دیکھ بھال کروں گا بلکہ تاریک وادی میں بھی اس کا ہم قدم ہونگا جب تک کہ میں اسے روزِ آخر تیرے پا س لے نہ آﺅں۔"

خدا نے انسان کو کامل تخلیق کیا، لیکن انسان نافرمانی کی بدولت گناہ میں گر گیا۔ خدا کی محبت انسان کے ساتھ تحمل سے پیش آئی، اور اُس نے ہمارے نجات دہندہ یسوع مسیح کے وسیلے سے گناہ میں گرے ہوئے انسان کےلئے کامل نجات تیار کی۔

آپ کے سوال نے ہمیں مجبور کر دیا کہ ایک بار پھر خدا کی عظیم نجات اور اِس نجات کو پانے کے حقیقی راستے پر غور کریں۔ نسل انسانی کی زندگی میں ہم اب اِس نجات کو کیسے دیکھتے ہیں؟ حقیقی مسیحیت کو سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ آپ لازماً گناہ میں گرے ہوئے انسان کےلئے خدا کی مخلصی کو سمجھیں۔

جب ہم پیدایش کی کتاب میں خدا تعالیٰ کے اُس کلام کے بارے میں پڑھتے ہیں جو اُس نے مردِ خدا موسیٰ نبی کو دیا، اور آدم اور حوا کے گناہ میں گرنے کے بعد اُن کے ننگے پن کو ڈھانپنے کےلئے جو کچھ خداوند خدا نے کیا اُس بارے میں سوچتے ہیں، تو ہم خدا کی محبت کی حقیقت تک پہنچ جائیں گے۔

کتاب مُقدّس بیان کرتی ہے "اور خداوند خدا نے آدم اور اُس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کُرتے بنا کر اُن کو پہنائے" (پیدایش 3: 21)۔

یہ واقعہ ثابت کرتا ہے کہ سب سے پہلے باغ عدن میں جانور ذبح ہوئے۔ انسان نے طوفان کے بعد جانوروں کا گوشت کھانا شروع کیا (پیدایش 9: 1- 3) جو گناہ میں گرنے کے تقریباً 500 سال بعد کا عرصہ ہے۔ گناہ میں گرنے سے پہلے انسان نباتات خور تھا۔ اُس وقت تک جانوروں کا ذبح کیا جانا نہیں تھا جب تک کہ زمین پر گناہ نہ آیا۔ جب آدم و حوا نے گناہ کیا تو اُنہیں پہنانے کےلئے خدا نے چمڑے کے کرتے مہیا کئے تا کہ اُنہیں سکھائے کہ "بغیر خون بہائے معافی نہیں" (عبرانیوں 9: 22)۔ اِس واقعہ سے خدا نے اُس عہد کا اشارہ دیا جو کفارہ دینے والی قربانیوں پر مشتمل تھا، جنہیں بعد میں پرانے عہدنامہ کے وقتوں میں پیش کیا جاتا رہا۔ تمام قربانیاں خدا کے برّہ یسوع مسیح کو ظاہر کرتی تھیں، جس نے تمام دُنیا کےلئے اپنا بدن قربان کر دیا۔

ہم جانتے ہیں کہ خون کی قربانی جو ہابل نے پیش کی وہ آنے والی مخلصی کی محض ایک جھلک تھی۔ وہ قربانی خدا کے منصوبہ کے ساتھ ہم آہنگ تھی۔ "اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوں کا اور کچھ اُن کی چربی کا ہدیہ لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اُس کے ہدیہ کو منظور کیا" (پیدایش 4: 4)۔

وہ مینڈھا جو خدا تعالیٰ نے ابرہام کو مہیا کیا کہ اُس کا بیٹا اضحاق بچ جائے، وہ محض اُس عظیم فدیے یسوع مسیح کی علامت تھا جسے خدا نے بنائے عالم سے پیشتر تیار کیا تھا۔ "اِن باتوں کے بعد یوں ہوا کہ خدا نے ابرہام کو آزمایا اور اُسے کہا اے ابرہام! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اُس نے کہا کہ تُو اپنے بیٹے اضحاق کو جو تیرا اکلوتا ہے اور جسے تُو پیار کرتا ہے ساتھ لے کر موریاہ کے ملک میں جا اور وہاں اُسے پہاڑوں میں سے ایک پہاڑ پر جو میں تجھے بتاﺅں گا سوختنی قربانی کے طور پر چڑھا۔ تب ابرہام نے صبح سویرے اُٹھ کر اپنے گدھے پر جار جامہ کسا اور اپنے ساتھ دو جوانوں اور اپنے بیٹے اضحاق کو لیا اور سوختنی قربانی کےلئے لکڑیاں چیریں اور اُٹھ کر اُس جگہ کو جو خدا نے اُسے بتائی تھی روانہ ہوا۔ تیسرے دن ابرہام نے نگاہ کی اور اُس جگہ کو دُور سے دیکھا۔ تب ابرہام نے اپنے جوانوں سے کہا تم یہیں گدھے کے پاس ٹھہرو۔ میں اور یہ لڑکا دونوں ذرا وہاں تک جاتے ہیں اور سجدہ کر کے پھر تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔ اور ابرہام نے سوختنی قربانی کی لکڑیاں لے کر اپنے بیٹے اضحاق پر رکھیں اور آگ اور چُھری اپنے ہاتھ میں لی اور دونوں اکھٹے روانہ ہوئے۔ تب اضحاق نے اپنے باپ ابرہام سے کہا اے باپ! اُس نے جواب دیا کہ اے میرے بیٹے میں حاضر ہوں۔ اُس نے کہا دیکھ آگ اور لکڑیاں تو ہیں پر سوختنی قربانی کےلئے برّہ کہاں ہے؟ ابرہام نے کہا اے میرے بیٹے خدا آپ ہی اپنے واسطے سوختنی قربانی کےلئے برّہ مہیا کر لے گا۔ سو وہ دونوں آگے چلتے گئے۔ اور اُس جگہ پہنچے جو خدا نے بتائی تھی۔ وہاں ابرہام نے قربان گاہ بنائی اور اُس پر لکڑیاں چُنیں اور اپنے بیٹے اضحاق کو باندھا اور اُسے قربان گاہ پر لکڑیوں کے اُوپر رکھا۔ اور ابرہام نے ہاتھ بڑھا کر چُھری لی کہ اپنے بیٹے کو ذبح کرے۔ تب خداوند کے فرشتہ نے اُسے آسمان سے پکارا کہ اے ابرہام اے ابرہام! اُس نے کہا میں حاضر ہوں۔ پھر اُس نے کہا کہ تُو اپنا ہاتھ لڑکے پر نہ چلا اور نہ اُس سے کچھ کر کیونکہ میں اب جان گیا کہ تُو خدا سے ڈرتا ہے اِس لئے کہ تُو نے اپنے بیٹے کو بھی جو تیرا اکلوتا ہے مجھ سے دریغ نہ کیا۔ اور ابرہام نے نگاہ کی اور اپنے پیچھے ایک مینڈھا دیکھا جس کے سینگ جھاڑی میں اٹکے تھے۔ تب ابرہام نے جا کر اُس مینڈھے کو پکڑا اور اپنے بیٹے کے بدلے سوختنی قربانی کے طور پر چڑھایا" (پیدایش 22: 1- 13)۔

پولس رسول نے لکھا "ہمارا بھی فسح یعنی مسیح قربان ہوا" (1-کرنتھیوں 5: 7ب)۔

تاریخ کا جائزہ لینے سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ خدا کے لوگ سینکڑوں سال تک شریعت کے سائے میں رہے جو موسیٰ کو دی گئی تھی۔ اُس شریعت میں اُن کےلئے جانوروں کی قربانیوں کے ذریعے اپنے گناہوں کے کفارہ کا موقع بھی تھا۔ خدا کی عدالت بہت سخت تھی اور جس کسی نے شریعت کی نافرمانی کی اُسے اُس نے بہت سخت سزا دی۔

قربانی میں خدا تعالیٰ کا مقصد یہ تھا کہ اُس کے حضور ایک گنہگار فرد کی خاطر خون کی قربانی پیش کی جائے; خطاکار انسان کی زندگی کی جگہ ایک بے گناہ جانور کی زندگی کی قربانی۔ "اور ایسا ہوا کہ جب خداوند یہ باتیں ایُّوب سے کہہ چکا تو اُس نے الیفز تیمانی سے کہا کہ میرا غضب تجھ پر اور تیرے دونوں دوستوں پر بھڑکا ہے کیونکہ تم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے جیسے میرے بندہ ایُّوب نے کہی۔ پس اب اپنے لئے سات بیل اور سات مینڈھے لے کر میرے بندہ ایُّوب کے پاس جاﺅ اور اپنے لئے سوختنی قربانی گذرانو اور میرا بندہ ایُّوب تمہارے لئے دُعا کرے گا کیونکہ اُسے تو میں قبول کروں گا تا کہ تمہاری جہالت کے مطابق تمہارے ساتھ سلوک نہ کروں کیونکہ تم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے جیسے میرے بندہ ایُّوب نے کہی۔" (ایُّوب 42: 7- 8)

وہ قربانیاں جن کا موسیٰ نبی نے حکم دیا وہ مختلف قسم کی تھیں، اور سب میں کفارہ کا خون ہوتا تھا۔ عبرانیوں کی کتاب میں لکھا ہے "اور تقریباً سب چیزیں شریعت کے مطابق خون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی" (عبرانیوں 9: 22)۔

خروج کی کتاب اِس علامت کے بارے میں یہ بیان کرتی ہے "اور موسیٰ نے آدھا خون لے کر باسنوں میں رکھا اور آدھا قربان گاہ پر چھڑک دیا۔ پھر اُس نے عہدنامہ لیا اور لوگوں کو پڑھ کر سُنایا۔ اُنہوں نے کہا کہ جو کچھ خداوند نے فرمایا ہے اُس سب کو ہم کریں گے اور تابع رہیں گے۔ تب موسیٰ نے اُس خون کو لے کر لوگوں پر چھڑکا اور کہا دیکھو یہ اُس عہد کا خون ہے جو خداوند نے اِن سب باتوں کے بارے میں تمہارے ساتھ باندھا ہے" (خروج 24: 6- 8)۔

جب ہم کتاب مُقدّس میں قربانیوں کی تاریخ کے بارے میں پڑھتے ہیں تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ تمام قربانیاں مسیح کی اور دُنیا کے گناہوں کےلئے اُس کی قربانی کی علامت تھیں۔

عبرانیوں کی کتاب اِس بات کی تصدیق اِن الفاظ سے کرتی ہے "اور چونکہ ہر سردار کاہن نذریں اور قربانیاں گذراننے کے واسطے مقرر ہوتا ہے اِس لئے ضرور ہوا کہ اِس کے پاس بھی گذراننے کو کچھ ہو" (عبرانیوں 8: 3)۔ عبرانیوں میں کاہنوں کے بارے میں یہ بھی لکھا ہے "اور ہر ایک کاہن تو کھڑا ہو کر ہر روز عبادت کرتا ہے اور ایک ہی طرح کی قربانیاں بار بار گذرانتا ہے جو ہرگز گناہوں کو دُور نہیں کر سکتیں" (عبرانیوں 10: 11)۔

کاہنوں کو اُن سب قربانیوں کو گذراننا اُس وقت تک جاری رکھنا تھا جب تک مسیح جس کا وہ انتظار کر رہے تھے ظاہر نہ ہو جاتا۔

مسیح کی قربانی دوبارہ دہرائی نہیں جا سکتی کیونکہ یہ اُس کا اپنا خون تھا اور اُس کے ذریعے اُس نے ابدی مخلصی کو ممکن کر دیا۔

عبرانیوں کی کتاب اِس بات کا ثبوت اِن الفاظ میں بیان کرتی ہے: "اور اِسی سبب سے وہ نئے عہد کا درمیانی ہے تا کہ اُس موت کے وسیلہ سے جو پہلے عہد کے وقت کے قصوروں کی معافی کےلئے ہوئی ہے بُلائے ہوئے لوگ وعدہ کے مطابق ابدی میراث کو حاصل کریں۔ کیونکہ جہاں وصیّت ہے وہاں وصیّت کرنے والے کی موت بھی ثابت ہونا ضرور ہے۔ اِس لئے کہ وصیّت موت کے بعد ہی جاری ہوتی ہے اور جب تک وصیّت کرنے والا زندہ رہتا ہے اُس کا اِجرا نہیں ہوتا۔ اِسی لئے پہلا عہد بھی بغیر خون کے نہیں باندھا گیا۔ چنانچہ جب موسیٰ تمام اُمت کو شریعت کا ہر ایک حکم سُنا چکا تو بچھڑوں اور بکروں کا خون لے کر پانی اور لال اُون اور زُوفا کے ساتھ اُس کتاب اور تمام اُمت پر چھڑک دیا۔ اور کہا کہ یہ اُس عہد کا خون ہے جس کا حکم خدا نے تمہارے لئے دیا ہے۔ اور اِسی طرح اُس نے خیمہ اور عبادت کی تمام چیزوں پر خون چھڑکا۔ اور تقریباً سب چیزیں شریعت کے مطابق خون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی۔ پس ضرور تھا کہ آسمانی چیزوں کی نقلیں تو اِن کے وسیلہ سے پاک کی جائیں مگر خود آسمانی چیزیں اِن سے بہتر قربانیوں کے وسیلہ سے۔ کیونکہ مسیح اُس ہاتھ کے بنائے ہوئے پاک مکان میں داخل نہیں ہوا جو حقیقی پاک مکان کا نمونہ ہے بلکہ آسمان ہی میں داخل ہوا تا کہ اب خدا کے روبرو ہماری خاطر حاضر ہو۔ یہ نہیں کہ وہ اپنے آپ کو بار بار قربان کرے جس طرح سردار کاہن پاک مکان میں ہر سال دوسرے کا خون لے کر جاتا ہے ورنہ بنایِ عالم سے لے کر اُس کو بار بار دُکھ اُٹھانا ضرور ہوتا مگر اب زمانوں کے آخر میں ایک بار ظاہر ہوا تا کہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گناہ کو مٹا دے" (عبرانیوں 9: 15- 26)۔

یہ حقیقت نئے عہدنامہ میں واضح ہے۔ یوحنا بپتسمہ دینے والے نے جب یسوع کو دیکھا تو اعلان کیا: "دیکھو یہ خدا کا برّہ ہے جو دُنیا کا گناہ اُٹھا لے جاتا ہے" (یوحنا 1: 29)۔ وہ اُس کی طرف اشارہ کر رہا تھا جس نے ہمارے گناہوں کی خاطر خدا کی قربانی بن جانا تھا۔ یوحنا رسول نے اپنے خط میں لکھا "اور وہی ہمارے گناہوں کا کفارہ ہے اور نہ صرف ہمارے ہی گناہوں کا بلکہ تمام دُنیا کے گناہوں کا بھی" (1-یوحنا 2: 2)۔

یسوع ایک شہید کی موت نہیں مرا، بلکہ اپنا آپ سب کےلئے قربان کر دیا۔ یسوع نے کہا "ابنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے" (متی 20: 28)۔

خدا نے اپنے بیٹے یسوع مسیح کے تجسم سے صدیوں پہلے یہ حقیقت یسعیاہ نبی پر منکشف کی "حالانکہ وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کُچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔ ہم سب بھیڑوں کی مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ پھرا پر خداوند نے ہم سب کی بد کرداری اُس پر لادی۔ وہ ستایا گیا تو بھی اُس نے برداشت کی اور منہ نہ کھولا۔ جس طرح برّہ جسے ذبح کرنے کو لے جاتے ہیں اور جس طرح بھیڑ اپنے بال کترنے والوں کے سامنے بے زبان ہے اُسی طرح وہ خاموش رہا" (یسعیاہ 53: 5- 7)۔

پولس رسول نے اکثر مسیح کے کفارہ کا ذِکر کیا ہے۔ چند مثالیں درج ذیل حوالوں میں ہیں:

"ہم کو اُس میں اُس کے خون کے وسیلہ سے مخلصی یعنی قصوروں کی معافی اُس کے اُس فضل کی دولت کے موافق حاصل ہے۔" (افسیوں 1: 7)

"کیونکہ جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں۔ چنانچہ لکھا ہے کہ جو کوئی اُن سب باتوں کے کرنے پر قائم نہیں رہتا جو شریعت کی کتاب میں لکھی ہیں وہ لعنتی ہے۔... مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اُس نے ہمیں مول لے کر شریعت کی لعنت سے چُھڑایا کیونکہ لکھا ہے کہ جو کوئی لکڑی پر لٹکایا گیا وہ لعنتی ہے تا کہ مسیح یسوع میں ابرہام کی برکت غیر قوموں تک بھی پہنچے اور ہم ایمان کے وسیلہ سے اُس روح کو حاصل کریں جس کا وعدہ ہوا ہے۔" (گلتیوں 3: 10، 13- 14)

"جو گناہ سے واقف نہ تھا اُسی کو اُس نے ہمارے واسطے گناہ ٹھہرایا تا کہ ہم اُس میں ہو کر خدا کی راستبازی ہو جائیں۔" (2-کرنتھیوں 5: 12)

یہ آیات مسیح کے بارے میں بات کرتی ہیں جس نے شریعت کی سزا کو اپنے اوپر لینے اور صلیب پر جان دینے سے ہمیں شریعت کی سزا سے بچایا۔ یہ کفارہ بخش قربانی تھی۔ پولس لکھتا ہے "اُسے خدا نے اُس کے خون کے باعث ایک ایسا کفارہ ٹھہرایا جو ایمان لانے سے فائدہ مند ہو تا کہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راستبازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو تا کہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو" (رومیوں 3: 25- 26)۔

ہمیں نہایت احتیاط سے اِن آیات کا جائزہ لینا چاہئے جو ہمیں سکھاتی ہیں کہ:

الف- خدا تعالیٰ نے یسوع مسیح کو سب کےلئے ایک کفارہ بخش قربانی ٹھہرایا۔

ب- ہر ایک انسان مسیح پر شخصی ایمان کی بدولت اِس کفارہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ یہ اُن سب کو راستباز ٹھہراتا ہے جو یسوع مسیح پر ایمان لاتے ہیں۔

ج- خدا اپنی راستبازی کو کفارہ بخش قربانی کے ذریعے ظاہر کرتا ہے ۔ یہ گنہگاروں کی طرف اُس کے رحم کا اظہار ہے۔ یہ مذکور راستبازی خدا تعالیٰ کی ایک منفرد خوبی ہے، اور یہ اُس راستبازی کی بات نہیں ہے جو خدا ایماندار کو بخش دیتا ہے۔ ہم اِسے سیاق و سباق سے بھی دیکھتے ہیں: "بلکہ اِسی وقت اُس کی راستبازی ظاہر ہو تا کہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔" یہ بیان لفظ کے ایسے مفہوم کو خارج کرتا ہے اور عدل سے راستبازی میں عمل کرنے کی خدا تعالیٰ کی رضامندی کی تصدیق کرتا ہے، کیونکہ وہ خدا ہے شریعت کا بخشنے والا اور دُنیا کا منصف۔

د- انصاف کے تقاضوں کو توڑے بغیر خداوند تعالیٰ کے رحم کو ظاہر کرنے کےلئے قربانی درکار ہے۔ اگر خدا تعالیٰ نے کفارہ بخش قربانی کے بغیر گنہگاروں پر اپنی رحمت کو ظاہر کیا ہوتا، تو وہ راست نہ ہوتا۔ اِس وجہ سے پولس رسول کہتا ہے کہ خدا نے یسوع کو ایک کفارہ کے طور پر بخش دیا "تا کہ وہ خود بھی عادل رہے اور جو یسوع پر ایمان لائے اُس کو بھی راستباز ٹھہرانے والا ہو۔" خدا کے کردار کو بدل کر اُسے رحمدل بنانے کی کوئی ضرورت نہ تھی۔ خداوند خدا کبھی نہیں بدلتا کیونکہ وہ کل، آج بلکہ ابد تک یکساں ہے۔ خدا تعالیٰ کی گواہی کتاب مُقدّس کی بنیاد ہے جس سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ مسیح نے انسانی فطرت اختیار کر کے اپنا آپ باپ کے حضور نذر کر دیا اور گنہگاروں کی جگہ خدا کی شریعت کی لعنت کو برداشت کیا۔ اور اِس سے ہم آگاہی پاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے اُس کی قربانی کو قبول کیا، اور اُسے اپنے عدل کے تقاضے کے مطابق سمجھا۔ اِس لئے وہ سب جو یسوع مسیح پر ایمان رکھتے ہیں، اُس کی جلالی شان و شوکت کے خلاف نہیں جاتے اور اُس کی اخلاقی شریعت کسی بھی طرح سے نہیں توڑتے، وہ اُن سب کو معاف کر سکتا ہے۔

قربانی کی اقسام

مسیح کی کفارہ بخش قربانی پر گیان دھیان کرنا ہمیں پرانے عہدنامہ کی قربانیوں کے جائزے کی طرف لے جاتا ہے جو موسیٰ نبی کی معرفت ملنے والی الہٰی شریعت کے مطابق تھیں:

(1) خطا کی قربانی (احبار 9 باب) - لوگوں کےلئے کفارہ تا کہ اُنہیں معافی حاصل ہو اور فضل پائیں۔

(2) جرم کی قربانی (احبار 5 باب) - اِس کا تعلق اُن گناہوں سے ہے جن کی تلافی کی جا سکتی ہو۔

(3) سوختنی قربانی (احبار 1 باب) - ایک بے عیب قربانی ہے جو اُس چیز کو ظاہر کرتی ہے جو مکمل طور پر خدا کےلئے وقف ہے۔

(4) سلامتی کا ذبیحہ (احبار 7: 11- 16) - یہ خداوند خدا کے حضور شکر گزاری کا اظہار ہے۔

(5) فسح کی قربانی (خروج 12 باب) - خدا تعالیٰ نے جناب موسیٰ، ہارون اور بنی اسرائیل کو دروازوں کے بازوﺅں اور چوکھٹ پر خون چھڑکنے کا حکم دیا۔

(6) سرخ رنگ کی بچھیا کی قربانی (گنتی 19 باب) - ناپاکی کو دُور کرنے کےلئے راکھ استعمال کی جاتی تھی۔

(7) کوڑھی کی قربانی (احبار 14 باب) - اِس کا تعلق کوڑھی کے پاک کئے جانے کے ساتھ تھا۔

(8) بچھیا (بچھڑے) کی قربانی (استثنا 21: 3) - اِس کا تعلق بے گناہ کے خون کی جوابدہی کو اپنے اُوپر سے دُور کرنے سے تھا۔

(9) کاہن کی مخصوصیت کی قربانی (احبار 7 باب) - یہ اُس وقت پیش کی جاتی تھی جب بنی ہارون میں سے کسی کو کاہن کے طور پر مخصوص کیا جاتا تھا۔

غور کیجئے کہ اِن سب قربانیوں کا بے عیب ہونا ضروری تھا تا کہ لوگوں کی نگاہ میں خدا تعالیٰ کی قدر کم نہ ہو (1-سلاطین 8: 13- 14)۔ بالخصوص، سب سے بڑھ کر بے عیب قربانی خدا کے برّہ یسوع کی علامت تھی جس نے دُنیا کے گناہوں کےلئے صلیب پر ایک کفارہ دیا اور وہ "بے عیب اور بے داغ" ہے (1-پطرس 1: 19- 20)۔

قربانی کے خون کا چھڑکاﺅ

پرانے عہدنامہ میں خون کا چھڑکاﺅ ایک اعلیٰ ضابطہ تھا، کیونکہ یہ کفارہ کا نشان تھا۔ خون کا یہ چھڑکاﺅ کاہن کی ذمہ داری ہوتی تھی جو خدا تعالیٰ اور لوگوں کے مابین ایک درمیانی مقرر ہوتا تھا۔ خیمہ اجتماع میں لانے کے بعد سات مرتبہ خون کا چھڑکاﺅ (احبار 8: 14) کفارہ کے کامل ہونے کا ایک نشان تھا، کیونکہ سات کا عدد کاملیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اِس لئے نیا عہدنامہ ایمانداروں کے بارے میں یہ بیان کرتا ہے کہ وہ یسوع مسیح کے خون کے بہائے جانے کے وسیلے سے گناہ سے پاک ہوئے ہیں (عبرانیوں 9; 1-پطرس 1)۔

مسیح کی حقیقی قربانی جس کی وہ علامتیں تھے۔

پرانے عہدنامہ کے مردانِ خدا نے بشری کمزوری اور گناہ سے بچائے جانے میں موسوی شریعت کی کمزوری کو دیکھا۔ وہ قربانیوں اور سوختنی قربانیوں کے علاوہ کسی اَور راہ کے متمنی تھے، اِنہی قربانیوں کے بارے میں رسول نے کہا کہ یہ "عبادت کرنے والے کو دِل کے اعتبار سے کامل نہیں کر سکتیں" (عبرانیوں 9: 9) اور خدا کو خوش نہیں کر سکتیں۔ ہمیں زبور 15: 16- 17 میں لکھا ملتا ہے: "کیونکہ قربانی میں تیری خوشنودی نہیں ورنہ میں دیتا۔ سوختنی قربانی سے تجھے کچھ خوشی نہیں۔ شکستہ روح خدا کی قربانی ہے۔ اے خدا تُو شکستہ اور خستہ دِل کو حقیر نہ جانے گا"۔

یسعیاہ نبی نے کہا: "خداوند فرماتا ہے تمہارے ذبیحوں کی کثرت سے مجھے کیا کام؟ میں مینڈھوں کی سوختنی قربانی سے اور فربہ بچھڑوں کی چربی سے بیزار ہوں اور بیلوں اور بھیڑوں اور بکروں کے خون میں میری خوشنودی نہیں۔ جب تم میرے حضور آ کر میرے دیدار کے طالب ہوتے ہو تو کون تم سے یہ چاہتا ہے کہ میری بارگاہوں کو روندو؟" (یسعیاہ 1: 11- 12)۔

تاہم، اِس غلط رویے کے دوران، خدا کے بیٹے کی محبت طالع ہوئی اور اُس نے اپنے ایماندار پیروکاروں کو بتایا کہ اُس نے نجات کےلئے وقت کی بھرپوری پر ایک حتمی قربانی الہٰی درمیانی کے وسیلہ تیار کی ہے "کیونکہ اُس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دیا ہے جو پاک کئے جاتے ہیں" (عبرانیوں 10: 14)۔

ایُّوب نبی جس نے گہرے طور پر دُکھ اُٹھایا، اپنے اور خدا تعالیٰ کے مابین ایک درمیانی کو ضروری پایا (ایُّوب9: 33) کیونکہ وہ کہتا ہے "ہمارے درمیان کوئی ثالث نہیں جو ہم دونوں پر اپنا ہاتھ رکھے۔"

یسعیاہ نبی نے مسیح کو اپنی نبوتی آنکھ سے دیکھتے ہوئے اُس کے نجات بخش کام کی بات کی ہے:

"وہ ظلم کر کے اور فتویٰ لگا کر اُسے لے گئے پر اُس کے زمانہ کے لوگوں میں سے کس نے خیال کیا کہ وہ زندوں کی زمین سے کاٹ ڈالا گیا؟ میرے لوگوں کی خطاﺅں کے سبب سے اُس پر مار پڑی۔ اُس کی قبر بھی شریروں کے درمیان ٹھہرائی گئی اور وہ اپنی موت میں دولتمندوں کے ساتھ ہوا حالانکہ اُس نے کسی طرح کا ظلم نہ کیا اور اُس کے منہ میں ہرگز چھل نہ تھا۔ لیکن خداوند کو پسند آیا کہ اُسے کُچلے۔ اُس نے اُسے غمگین کیا۔ جب اُس کی جان گناہ کی قربانی کےلئے گذرانی جائے گی تو وہ اپنی نسل کو دیکھے گا۔ اُس کی عمر دراز ہو گی۔ اپنی ہی جان کا دُکھ اُٹھا کر وہ اُسے دیکھے گا اور سیر ہو گا۔ اپنے ہی عرفان سے میرا صادق خادم بہتوں کو راستباز ٹھہرائے گا کیونکہ وہ اُن کی بدکرداری خود اُٹھا لے گا۔ اِس لئے میں اُسے بزرگوں کے ساتھ حصہ دوںگا اور وہ لوٹ کا مال زورآوروں کے ساتھ بانٹ لے گا کیونکہ اُس نے اپنی جان موت کےلئے اُنڈیل دی اور وہ خطاکاروں کے ساتھ شمار کیا گیا تو بھی اُس نے بہتوں کے گناہ اُٹھا لئے اور خطاکاروں کی شفاعت کی۔" (یسعیاہ 53: 8- 12)

ترسس کا ساﺅل شریعت کی راستبازی تک پہنچنے میں ناکام ہونے کے بعد اُس درمیانی کی تلاش میں تھا جس کا نبیوں نے ذِکر کیا تھا، جب تک کہ مسیح اُسے دمشق کی راہ پر نہ مل گیا۔ پولس نے اُس میں اُس درمیانی کو پہچانا جو مجسم ہوا تا کہ صلیب پر اپنی کفارہ بخش موت کے ذریعے گنہگاروں کو نجات بخشے۔ اِس لئے پولس نے یہ الفاظ لکھے: "لیکن جب وقت پورا ہو گیا تو خدا نے اپنے بیٹے کو بھیجا جو عورت سے پیدا ہوا اور شریعت کے ماتحت پیدا ہوا۔ تا کہ شریعت کے ماتحتوں کو مول لے کر چُھڑا لے اور ہم کو لے پالک ہونے کا درجہ ملے" (گلتیوں 4: 4- 5)۔

درحقیقت، کلام کا تجسم صحائف مُقدّسہ میں انتہائی اہمیت کی حامل حقیقت ہے کیونکہ یہ الہٰی مخلصی کی اساس ہے۔ ایک نجات دہندہ کے طور پر اپنے کام کو مکمل کرنے سے پہلے یہ امرِ لازم تھا۔ اِسی لئے تجسم وہ موضوع ہے جو خدا کی الہامی کتابوں کے ذریعے ایک مسلسل مکاشفہ کی صورت میں دیا گیا۔

یہ مکاشفہ جات نجات دہندہ کی طرف اشارہ دینے سے شروع ہوئے جس نے اُس وقت آنا تھا "جب وقت پورا ہو گیا" تا کہ انسانیت کو شریعت کی لعنت سے آزاد کرے اور ہر ایک اُمت کےلئے ایک بڑی برکت ہو۔ پھر یہ اعلانات اُس سب کو اَور زیادہ واضح کرنے کےلئے شروع ہوئے جس کا اُس سے کوئی تعلق تھا۔ اِن کا آغاز "عورت کی نسل" کے ذِکر سے شروع ہوا، پھر ابرہام کی نسل کا ذِکر ہوا، پھر یہوداہ کے قبیلے کا ذِکر ہوا، پھر داﺅد کے گھرانے کا ذِکر ہوا، پھر کنواری سے اُس کی پیدایش کا ذِکر ہوا۔ اِن اعلانات نے بیان کیا کہ وہ الہٰی صفات کا حامل ہو گا اور اپنے لئے چُنے ہوئے لوگوں کو مخلصی بخشے گا جن پر وہ مہربان حکمران ہو گا (یسعیاہ 9: 6)۔

حیران کن بات یہ ہے کہ اِن بیانات میں اُس کی ذات سے متعلق انوکھے اور صحیح حالات و واقعات کا ذِکر کیا گیا ہے جو کسی طرح سے بھی انسانی اختراع پسندی نہیں ہو سکتے; اِن میں سے کچھ کا ذِکر ذیل میں کیا گیا ہے:

٭اُس کی پیدایش کے بالکل صحیح مقام کا ذکرہے:

"لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے۔" (میکاہ 5: 2)

٭وہ غریب اور حلیم ہونے کے ساتھ ساتھ جلالی بھی ہو گا:

"اور یسّی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور اُس کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہو گی۔ اور خداوند کی روح اُس پر ٹھہرے گی۔ حکمت اور خرد کی روح مصلحت اور قدرت کی روح معرفت اور خداوند کے خوف کی روح۔" (یسعیاہ 11: 1- 2)

٭وہ کسی خارجی جلال کے بغیر ایک بادشاہ ہو گا:

"اے بنتِ صیّون تُو نہایت شادمان ہو۔ اے دُخترِ یروشلیم خوب للکار کیونکہ تیرا بادشاہ تیرے پاس آتا ہے۔ وہ صادق ہے اور نجات اُس کے ہاتھ میں ہے۔ وہ حلیم ہے اور گدھے پر بلکہ جوان گدھے پر سوار ہے۔" (زکریاہ 9: 9)

٭وہ ایک کاہن ہو گا:

"خداوند نے قسم کھائی ہے اور پھِرے گا نہیں کہ تُو ملکِ صِدق کے طور پر ابد تک کاہن ہے۔" (زبور 110: 4)

اِس کا مطلب یہ ہے کہ مسیح کا کفارہ بخش کام ایک کاہن کا کام ہے جس سے چند خاص باتیں اخذ ہوتی ہیں:

(1) ایک کاہن ہونا اُسے گنہگاروں کا نمائندہ بناتا ہے جسے خدا نے اُن کےلئے مقرر کیا تا کہ جو کچھ وہ اپنے لئے نہیں کر سکتے وہ اُن کےلئے کر سکے۔ چونکہ وہ اپنے گناہوں اور ناپاکی کی وجہ سے خدا تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے، اِس لئے الہٰی محبت نے الہٰی اختیار کی حامل ایک ہستی کو مقرر کیا جو خدا کے سامنے اُن کی خدا کے ساتھ مصالحت کرانے کےلئے پیش ہو۔

(2) گناہ کےلئے کفارہ کے بغیر صلح صفائی نہیں ہو سکتی۔ "اور تقریباً سب چیزیں شریعت کے مطابق خون سے پاک کی جاتی ہیں اور بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی (عبرانیوں9: 22)۔

(3) یہ کفارہ گنہگار کی جگہ لے کر ایک قربانی پیش کرنے سے پورا ہو گا تا کہ اُس کےلئے گناہ کی سزا موت کو برداشت کر سکے۔

(4) پرانے عہدنامہ کے کاہن بالکل اِسی طریقے سے جسے خدا نے مقرر کیا تھا خدمت کرتے تھے جس سے گنہگار اپنے جرم سے معافی پاتا تھا۔ تاہم، جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے، گناہ ختم نہیں ہو گیا۔ اگر وہ اُسی گناہ کا ارتکاب دوبارہ کرتا تو اُسے پھِر ایک اَور قربانی نذر کرنی پڑتی تھی۔

(5) غرض، ہارون کی کہانت ایک حقیقی کاہن اور شروع سے وعدہ کی گئی حقیقی قربانی کی علامت تھی۔

(6) مسیح حقیقی کاہن ہے اور اُس میں وہ تمام صفات موجود ہیں جو کہانت کےلئے ضروری ہیں۔ اور چونکہ مسیح نے ایک انسانی جسم اختیار کیا، اِس لئے وہ نسلِ انسانی کا ایک نمائندہ بن گیا۔ اُس نے ایک قربانی گذرانی اور اپنے لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرنے کے قابل تھا اور اُس نے درحقیقت کاہن کے کام کو مکمل طور پر پورا کیا۔

(7) وہ قربانی جو ہمارے عظیم سردار کاہن مسیح نے گذرانی، وہ جانوروں کا خون نہیں تھا بلکہ اُس کا اپنا خون تھا۔

(8) یہ وہ واحد قربانی تھی جس نے اُن کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دیا جو پاک کئے جاتے ہیں (عبرانیوں 10: 14)۔

(9) مسیح کی قربانی نے باقی تمام قربانیوں کو ختم کر دیا، کیونکہ اب اُن کی ضرورت نہیں ہے۔

مذکورہ بالا نکات سے یہ بڑا واضح ہے کہ مسیح کا کفارہ صرف ایک دعویٰ نہیں ہے جیسا کہ آپ کا کہنا ہے، بلکہ ایک حقیقت ہے جو الہٰی مشورت اور انسان کی طرف اُس کی محبت پر مبنی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ اِس مفصّل وضاحت کے بعد آپ یہ سوال کریں "کس چیز نے مسیح کو تجسم اور فدیہ و کفارہ کے کام کےلئے تحریک دی؟"

جواب یہ ہے: تثلیث کے دوسرے اقنوم کا تجسم اور انسانیت کو مخلصی دینے کےلئے اُس کی موت کوئی اضطراری عمل نہیں تھا، بلکہ یہ اُس کا اپنا انتخاب تھا۔ اُس نے خود فرمایا: "باپ مجھ سے اِس لئے محبت رکھتا ہے کہ میں اپنی جان دیتا ہوں تا کہ اُسے پھِر لے لوں۔ کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہیں بلکہ میں اُسے آپ ہی دیتا ہوں۔ مجھے اُس کے دینے کا بھی اختیار ہے اور اُسے پھِر لینے کا بھی اختیار ہے۔ یہ حکم میرے باپ سے مجھے ملا" (یوحنا 10: 17- 18)۔

اِس کا مطلب یہ ہوا کہ مسیح کو مجبور نہیں کیا گیا تھا کہ وہ اپنا آپ قربان کرے، بلکہ اُس نے جہان کے گناہ اُٹھا لے جانے کےلئے اپنا آپ رضامندی سے نذر کیا۔ باالفاظ دیگر، خدا تعالیٰ نے انسان کےلئے اپنی حیرت انگیز محبت کی بدولت مخلصی کےلئے اپنے اکلوتے بیٹے کو بخش دیا جو دُنیا میں آیا: "پس جس صورت میں کہ لڑکے خون اور گوشت میں شریک ہیں تو وہ خود بھی اُن کی طرح اُن میں شریک ہوا تا کہ موت کے وسیلہ سے اُس کو جسے موت پر قدرت حاصل تھی یعنی ابلیس کو تباہ کر دے۔ اور جو عمر بھر موت کے ڈر سے غلامی میں گرفتار رہے اُنہیں چُھڑا لے" (عبرانیوں 2: 14- 15)۔

کتاب مُقدّس ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح نے بہ رضا و رغبت جسم اختیار کیا تا کہ ایک درمیانی ہو اور انسان کی خدا تعالیٰ سے صلح کروائے۔ بائبل مُقدّس میں لکھا ہے: "خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمہ نہ لگایا اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے" (2-کرنتھیوں 5: 19)۔

یہ عزیز کتاب صریح طور پر ہمیں بتاتی ہے کہ درمیانی جس نے خدا کی انسان سے صلح کروانی تھی اُس میں مندرجہ ذیل صفات ہونی چاہئیں:

(1) ایک انسان ہو - "اور کلام مجسم ہوا اور فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا" (یوحنا 1: 14)۔ کلام نے فرشتہ کی فطرت اختیار کرنے کے بجائے انسانی فطرت اِس لئے اختیار کی کہ ہمیں نجات بخشے۔ اُس کےلئے ضروری تھا کہ اُس شریعت کے تابع پیدا ہوتا جو ہم نے توڑی تھی، تا کہ تمام راستبازی پوری کرے اور ہماری انسانی زندگی میں شریک ہو اور ہماری کمزوریوں کا تجربہ کرے، اور پھر ہمارے گناہوں کےلئے کفارہ کے طور پر دُکھ اُٹھائے اور مر جائے۔

(2) گناہ کے بغیر ہو، کیونکہ شریعت کے مطابق کفارہ و فدیہ کے طور پر جو قربانی نذرکی جاتی تھی اُس کےلئے ضروری تھا کہ وہ بے عیب ہو۔ غرض، درمیانی جس نے دُنیا کی مخلصی کےلئے اپنا آپ نذر کرنا تھا، ضروری تھا کہ وہ خود بے گناہ ہو۔ کیونکہ گناہ سے نجات دینے والے کےلئے یہ ناممکن ہے کہ وہ ایک گنہگار ہو، کیونکہ گنہگار خدا تک نہیں پہنچ سکتا، اور نہ یہ گناہوں کی قربانی کے لائق ہے اور نہ ہی اپنے لوگوں کےلئے پاکیزگی اور ابدی زندگی کا ذریعہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ ہمارے سردار کاہن فدیہ عظیم کےلئے ضروری تھا کہ وہ "پاک اور بے ریا اور بیداغ" اور "گناہوں سے جُدا" ہو (عبرانیوں 7: 26)۔ ہمیں معلوم ہے کہ مسیح بغیر خطا کے تھا کیونکہ اِس کی گواہی رسولی الفاظ میں یوں دی گئی ہے: "... کیونکہ مسیح بھی تمہارے واسطے دُکھ اُٹھا کر تمہیں ایک نمونہ دے گیا ہے تا کہ اُس کے نقش قدم پر چلو۔ نہ اُس نے گناہ کیا اور نہ اُس کے منہ سے کوئی مکر کی بات نکلی" (1-پطرس 2: 21- 22)۔

(3) خدا ہو۔ ایک آدمی کا خون گناہ دُور نہیں کر سکتا۔ خدا ہوتے ہوئے مسیح نے اپنی کامل ترین قربانی کے ذریعے مُقدّسین کو ہمیشہ کےلئے کامل کر دیا (عبرانیوں 9: 26)۔ صرف خدا ہی شیطان کی قوت پر فتح پا سکتا ہے اور اُن سب کو بچاتا ہے جو ابلیس کے قبضے میں تھے۔ وہ شخصیت جو اِس مخلصی کے کام کو کر سکتی اُس کےلئے ایک عظیم سردار کاہن اور سب کے منصف ہونے کےلئے ضروری تھا کہ وہ ہر شے پر قادر ہوتی، اور اُس کی حکمت و معرفت غیرمحدود ہوتی۔ تمام مُقدّسین کےلئے روحانی زندگی کا مصدر ہونے کےلئے لازم تھا کہ وہ ایسی شخصیت ہو جس کے بارے میں کتاب مُقدّس کہتی ہے کہ "الوہیت کی ساری معموری اُسی میں مجسم ہو کر سکونت کرتی ہے" (کلسیوں 2: 9)۔

یہ سب صفات جن کے بارے میں کتاب مُقدّس بیان کرتی ہے کہ یہ خدا اور انسان کے مابین درمیانی کےلئے ضروری تھیں مسیح میں پائی جاتی تھیں۔ مسیح کا درمیانی ہونا انسان کی نجات کےلئے جو کچھ اُس نے کیا اور جو کچھ اب وہ کر رہا ہے اُس کے مطابق ہے، اور یہ ایک الہٰی شخصی عمل بن جاتا ہے۔ اِسی طرح، مسیح کا درمیانی ہونے کا سارا کام اور دُکھ ایک الہٰی شخصیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ جو مصلوب ہوا جلال کا خداوند تھا۔ یہ سچائی مندرجہ ذیل نکات سے عیاں ہے:

(1) کتاب مُقدّس اُس کے کام، اختیار، اُس کی تعلیمات کی صداقت، حکمت، اور اُس کے دُکھوں کی اہمیت کو اُس کے وجود سے منسوب کرتی ہے کہ خدا "جسم میں ظاہر ہوا" (1-تیمتھیس 3: 16)۔

(2) اگر ہمارا درمیانی محض ایک انسانی وجود ہوتا، تو وہ گناہ میں گرے ہوئے انسانوں کو بچانے کے قابل نہ ہوتا، اور نتیجہ یہ ہوتا کہ انجیل جلال یا قدرت یا کفائیت سے خالی ہوتی۔

(3) گناہ میں گرے ہوئے انسانوں کےلئے صرف وہ شخصیت فدیہ و مخلصی دے سکتی تھی جو خدا اور انسان دونوں ہو۔ مسیح کے نبوتی کام کےلئے ضروری ہے کہ وہ حکمت اور علم کے تمام خزانوں کا مالک ہو۔

اُس کے کاہن ہونے کےلئے لازم امر یہ ہے کہ اُسے خدا کے بیٹے ہونے کا شرف حاصل ہو تا کہ اُس کا کام موثر ہو۔ صرف ایک الٰہی شخصیت اُس اختیار کو استعمال کر سکتی ہے جو مسیح کو درمیانی کے طور پر آسمان اور زمین پر دیا گیا۔ صرف الہٰی شخصیت ہی ہمیں گناہ کی غلامی اور اُس کے تباہ کن اثرات سے بچا سکتی ہے یا مُردوں کو زندہ کر سکتی ہے یا ابدی زندگی دے سکتی ہے۔ سچائی یہ ہے کہ ہمیں ایک نجات دہندہ کی ضرورت ہے "جو پاک اور بے ریا اور بیداغ ہو اور گنہگاروں سے جُدا اور آسمانوں سے بلند کیا گیا ہو" (عبرانیوں 7: 26)۔

سوال-۵

مسیح کے الوہیت کے بارے میں انبیا کی گواہی

کیا وہ انبیا جو مسیح کی آمد سے پہلے تھے اُس کی الوہیت پر ایمان رکھتے تھے؟ (اگر جواب ہاں میں ہے تو اِس کےلئے ثبوت دیجئے۔)

جواب:

جی ہاں، مسیح کی آمد سے پہلے کے انبیا اُس کی الوہیت پر ایمان رکھتے تھے۔ یہ اُن کی گواہیوں سے ثابت شدہ ہے جو کہ الہامی صحیفوں میں درج ہیں:

الف- داﺅد

(1) داﺅد نبی نے دوسرے زبور میں زمین کے بادشاہوں اور حاکموں کو مخاطب کیا ہے: "پس اب اے بادشاہو! دانشمند بنو۔ اے زمین کے عدالت کرنے والو تربیت پاﺅ۔ ڈرتے ہوئے خداوند کی عبادت کرو۔ کانپتے ہوئے خوشی مناﺅ۔ بیٹے کو چومو۔ ایسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئے اور تم راستہ میں ہلاک ہو جاﺅ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے۔ مبارک ہیں وہ سب جن کا توکل اُس پر ہے" (زبور 2: 10- 12)۔

داﺅد نبی ہمیں نہ صرف اُس کی عبادت کرنے کا حکم دیتا ہے بلکہ اُنہیں مبارک کہتا ہے جو یہ جانتے ہوئے اُس پر توکل کرتے ہیں کہ کتاب مُقدّس واضح طور پر اُن سب کو لعنتی قرار دیتی ہے جو انسان پر توکل کرتے ہیں۔

(2) زبور 110: 1 میں لکھا ہے: "یہوواہ نے میرے خداوند سے کہا تُو میرے دہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں کی چوکی نہ کر دُوں۔" ہمارے خداوند یسوع مسیح نے اِن الفاظ کا اقتباس اُس وقت کیا جب آپ چند مذہبی یہودیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔ آپ نے اُن سے پوچھا "تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟ اُنہوں نے اُس سے کہا داﺅد کا۔ اُس نے اُن سے کہا پس داﺅد روح کی ہدایت سے کیونکر اُسے خداوند کہتا ہے کہ 'خداوند نے میرے خداوند سے کہا میری دہنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دُشمنوں کو تیرے پاﺅں کے نیچے نہ کر دُوں؟' پس جب داﺅد اُس کو خداوند کہتا ہے تو وہ اُس کا بیٹا کیونکر ٹھہرا؟" (متی 22: 42- 45)۔

ب- یسعیاہ

(1) "تب خداوند کی طرف سے روئیدگی (شاخ) خوبصورت و شاندار ہو گی اور زمین کا پھل اُن کےلئے جو بنی اسرائیل میں سے بچ نکلے لذیذ اور خوشنما ہو گا" (یسعیاہ 2: 4)۔ "روئیدگی" (شاخ) کتاب مُقدّس کی زبان میں یسوع مسیح کی طرف اشارہ کرتی ہے، اور نبیوں نے اکثر اُسے "شاخ" کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ مثلاً یرمیاہ نبی کہتا ہے "دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ میں داﺅد کےلئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا اور اُس کی بادشاہی مُلک میں اقبالمندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہو گی" (یرمیاہ 23: 5)۔ اور زکریاہ نبی نے کہا "دیکھ وہ شخص جس کا نام شاخ ہے اُس کے زیرِ سایہ خوشحالی ہو گی اور وہ خداوند کی ہیکل کو تعمیر کرے گا" (زکریاہ 6: 12)۔

(2) یسعیاہ نبی نے کہا "جس سال میں عُزّیاہ بادشاہ نے وفات پائی میں نے خداوند کو ایک بڑی بلندی پر اونچے تخت پر بیٹھے دیکھا اور اُس کے لباس کے دامن سے ہیکل معمور ہو گئی۔ اُس کے آس پاس سرافیم کھڑے تھے جن میں سے ہر ایک کے چھ بازو تھے اور ہر ایک دو سے اپنا منہ ڈھانپے تھا اور دو سے پاﺅں اور دو سے اُڑتا تھا۔ اور ایک نے دوسرے کو پکارا اور کہا قُدُّوس قُدُّوس قُدُّوس ربُّ الافواج ہے۔ ساری زمین اُس کے جلال سے معمور ہے" (یسعیاہ 6: 1- 3)۔ یہاں نبی یسوع مسیح کی بات کر رہا ہے جس کی تصدیق انجیل مُقدّس بھی کرتی ہے "یسعیاہ نے یہ باتیں اِس لئے کہیں کہ اُس نے اُس کا جلال دیکھا اور اُس نے اُسی کے بارے میں کلام کیا" (یسعیاہ 12: 41)۔

(3) "اِس لئے ہمارے لئے ایک لڑکا تولُّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا اور سلطنت اُس کے کندھے پر ہو گی اور اُس کا نام عجیب مشیر خدای قادر ابدیت کا باپ سلامتی کا شاہزادہ ہو گا۔" (یسعیاہ 9: 6)

ج- یرمیاہ

یرمیاہ نبی کہتا ہے: "دیکھ وہ دن آتے ہیں خداوند فرماتا ہے کہ میں داﺅد کےلئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا اور اُس کی بادشاہی مُلک میں اقبالمندی اور عدالت اور صداقت کے ساتھ ہو گی۔ اُس کے ایّام میں یہوداہ نجات پائے گا اور اسرائیل سلامتی سے سکونت کرے گا اور اُس کا نام یہ رکھا جائے گا خداوند ہماری صداقت" (یرمیاہ 23: 5- 6)۔

د- دانی ایل

(1) دانی ایل نبی کہتا ہے: "میں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص آدمزاد کی مانند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدیم الایّام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضور لائے۔ اور سلطنت اور حشمت اور مملکت اُسے دی گئی تا کہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خدمتگذاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی" (دانی ایل 7: 13- 14)۔

(2) وہ مزید یہ کہتا ہے: "تیرے لوگوں اور تیرے مُقدّس شہر کےلئے ستّر ہفتے مقرر کئے گئے کہ خطاکاری اور گناہ کا خاتمہ ہو جائے۔ بدکرداری کا کفارہ دیا جائے۔ ابدی راستبازی قائم ہو۔ رویا و نبوت پر مہر ہو اور پاکترین مقام ممسوح کیا جائے۔ پس تُو معلوم کر اور سمجھ لے کہ یروشلیم کی بحالی اور تعمیر کا حکم صادر ہونے سے ممسوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے۔ تب پھر بازار تعمیر کئے جائیں گے اور فصیل بنائی جائے گی مگر مصیبت کے ایّام میں۔ اور باسٹھ ہفتوں کے بعد وہ ممسوح قتل کیا جائے گا اور اُس کا کچھ نہ رہے گا اور ایک بادشاہ آئے گا جس کے لوگ شہر اور مقدِس کو مسمار کریں گے اور اُس کا انجام گویا طوفان کے ساتھ ہو گا اور آخر تک لڑائی رہے گی۔ بربادی مقرر ہو چکی ہے۔ اور وہ ایک ہفتہ کےلئے بہتوں سے عہد قائم کرے گا اور نصف ہفتہ میں ذبیحہ اور ہدیہ موقوف کرے گا اور فصیلوں پر اُجاڑنے والی مکروہات رکھی جائیں گی یہاں تک کہ بربادی کمال کو پہنچ جائے گی اور وہ بلا جو مقرر کی گئی ہے اُس اُجاڑنے والے پر واقع ہو گی" (دانی ایل 9: 24- 27)۔

یہ نبوتیں مسیح کی آمد اور جو الہٰی کام وہ پورا کرنے کو تھا اُس کے بارے میں ہیں۔ دانی ایل نبی اپنی پہلی گواہی میں مسیح کو "ابنِ آدم" کہہ کر مخاطب کرتا ہے۔ اور دوسری جگہ وہ مسیح کو ممسوح بادشاہ کہتا ہے۔ یہ وہ القاب ہیں جو مسیح نے اپنے لئے استعمال کئے ہیں:

"کیونکہ ابنِ آدم اِس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اِس لئے کہ خدمت کرے اور اپنی جان بہتیروں کے بدلے فدیہ میں دے۔" (متی 20: 28)

"اور فِلدلفیہ کی کلیسیا کے فرشتہ کو یہ لکھ کہ جو قُدُّوس اور برحق ہے اور داﺅد کی کُنجی رکھتا ہے جس کے کھولے ہوئے کو کوئی بند نہیں کرتا اور بند کئے ہوئے کو کوئی کھولتا نہیں۔" (مکاشفہ 3: 7)

ہ- میکاہ نبی

وہ لکھتا ہے: "لیکن اے بیت لحم اِفراتاہ اگرچہ تُو یہوداہ کے ہزاروں میں شامل ہونے کےلئے چھوٹا ہے تو بھی تجھ میں سے ایک شخص نکلے گا اور میرے حضور اسرائیل کا حاکم ہو گا اور اُس کا مصدر زمانہ سابق ہاں قدیم الایّام سے ہے" (میکاہ 5: 2)۔

یہ یسوع مسیح کے تجسم اور بیت لحم میں اُس کی پیدایش کے بارے میں ایک نبوت ہے اور اُس کے ازلی ہونے کی طرف اشارہ ہے۔ "نکلے گا" کا مطلب تثلیث کے دوسرے اقنوم کے طور پر اُس کا ظہور ہے کہ جب وہ عہد کے فرشتہ کے طور پر ابرہام پر ظاہر ہوا (پیدایش 18 باب)، موسیٰ پر ظاہر ہوا (خروج 3 باب)، یشوع پر ظاہر ہوا (یشوع 13 باب)، جدعون پر ظاہر ہوا (قضاة 6 باب) اور منوحہ پر ظاہر ہوا (یشوع 13 باب)۔

جیسے خدا ازلی ہے ویسے ہی مسیح ازلی ہے (دیکھئے یوحنا 1: 1- 2)۔

و- ملاکی

ملاکی نبی کہتا ہے: "دیکھو میں اپنے رسول کو بھیجوں گا اور وہ میرے آگے راہ درست کرے گا اور خداوند جس کے تم طالب ہو ناگہان اپنی ہیکل میں آ موجود ہو گا۔ ہاں عہد کا رسول جس کے تم آرزومند ہو آئے گا ربُّ الافواج فرماتا ہے" (ملاکی 3: 1)۔

یہ آیت مجیدہ یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بارے میں بتاتی ہے جو خداوند یسوع مسیح سے پہلے راہ تیار کرنے کو آیا۔ یہ وہ ہے جس نے لوگوں کو یہ کہتے ہوئے منادی کی "توبہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آ گئی ہے" (متی 3: 1)۔ پاک تثلیث کا دوسرا اقنوم عہد کا رسول ہے، اور اُسے یہ نام اِس لئے دیا گیا کہ اُس میں خدا کے وعدے پورے ہونے تھے (عبرانیوں 9: 15)۔

مندرجہ بالا حوالہ جات میں ہم نے دیکھا کہ پرانے عہدنامہ کے انبیا مسیح کی الوہیت پر ایمان رکھتے تھے۔ انبیا کے نوشتوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ دُنیا کو بچانے کےلئے خدا انسانی فطرت کے ساتھ ملبس ایک شخص کے طور پر آ رہا ہے۔ اُسے ایک عورت سے، ابرہام کی نسل سے، یہوداہ کے قبیلہ سے، داﺅد کے گھرانے سے ایک کنواری سے پیدا ہونا ہے; اور وہ دُنیا کے گناہ کےلئے اپنے آپ کو ایک قربانی کے طور پر نذر گزرانے گا۔

ہمارے پاس مضبوط ثبوت ہے کہ عہد کا رسول خدا کی ذات میں دوسرا اقنوم ہے، اور پرانے عہدنامہ میں اُسے یہوواہ کا فرشتہ، ایلوہیم اور خدا بھی کہا گیا ہے۔ یہ وہی مسیح ہے جس کا ذِکر نئے عہدنامہ میں ہے جو یوحنا بپتسمہ دینے والے کے بعد آیا۔ اور یسعیاہ نبی نے اُس کے آنے کے بارے میں نبوت کی جب یہ کہا "پکارنے والے کی آواز! بیابان میں خداوند کی راہ درست کرو۔ صحرا میں ہمارے خدا کےلئے شاہراہ ہموار کرو۔ ... اور خداوند کا جلال آشکارا ہو گا اور تمام بشر اُس کو دیکھے گا کیونکہ خداوند نے اپنے منہ سے فرمایا ہے" (یسعیاہ 40: 3، 5)۔

اگر ہم نیا عہدنامہ دیکھیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ جو راہ تیار کر رہا ہے وہ یوحنا بپتسمہ دینے والا ہے، اور جو آ رہا ہے جسے یسعیاہ "ہمارے خدا" کہتا ہے بلا شبہ وہ یسوع مسیح ہے۔ خداوند جو اپنی ہیکل میں آ رہا ہے مسیح ہے (متی 11: 10; مرقس 1: 2; لوقا 1: 76; 7: 27)۔

سوال-6

کیا خدا تعالیٰ آدم اور اُس کی نسل کو مسیح کی مصلوبیت کے بغیر نجات نہیں دے سکتا تھا؟

جواب:

یہ سوال ہمیں دوبارہ کفارہ کے موضوع کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ ماضی کے گناہوں کےلئے کفارہ کے بغیر نجات نہیں ہے۔ لفظ "کفارہ" کا مطلب ہے گناہ کو ڈھانپنا یا اُس پر پردہ ڈال دینا۔ مسیحیت میں کفارہ مسیح کا کام ہے جو باپ کی مرضی کی کامل فرمانبرداری کے ذریعے ہوا۔ مختصر یہ کہ شریعت کی لعنت سے دُنیا کی نجات اور انسان کی خدا کے ساتھ مصالحت اُس کے خون کے ذریعے ہوئی جو صلیب پر بہا۔

مسیح کی صفات پر مختلف زاویوں مثلاً محبت، قدوسیت اور انصاف کے اعتبار سے خدا کے تعلق سے، اور نسلِ انسانی میں اور اُن کےلئے اُس کے کام کے اعتبار سے انسان کے تعلق سے نگاہ کرنا ممد و معاون ہے۔

سو یہ بیان کیا گیا ہے کہ مسیح کا کفارہ انسان کے گناہ کےلئے ہے; یہ گنہگاروں کی شریعت کی لعنت اور سزا سے نجات کےلئے مسیح کی قربانی کا واضح اظہار ہے۔

یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ مسیح کا کفارہ خدا تعالیٰ کو خوش کرنا اور اُس کے عدل کے تقاضے کو پورا کرنا ہے۔ یعنی اِس کا تعلق اُس کی رضا سے ہے۔ یہ خدا کے غضب کو دُور کرنے میں مسیح کی قربانی کے نتائج کو اور مصالحت کےلئے گنہگار کو قبول کرنے میں اُس کی رضا کو ظاہر کرتا ہے۔

ایک اَور نکتہ نظر یہ ہے کہ کفارہ گنہگار نفس کا مسیح کے خون سے ڈھانپا جانا ہے تا کہ اُس پر سزا لاگو نہ ہو۔

مسیح جو اُس کی خاطر قربان ہوا اُس نے اُس کی سزا اپنے اوپر لے لی۔ اِس بات کا اشارہ یوحنا رسول نے اپنے الفاظ میں دیا "محبت اِس میں نہیں کہ ہم نے خدا سے محبت کی بلکہ اِس میں ہے کہ اُس نے ہم سے محبت کی اور ہمارے گناہوں کے کفارہ کےلئے اپنے بیٹے کو بھیجا" (1-یوحنا 4: 10)۔

مزید یہ کہ کفارہ نے خدا کی پاک شریعت کی اہمیت کو کم کئے بغیر خدا تعالیٰ اور انسان کے درمیان مصالحت کے دروازے کو کھول دیا۔ اِس کا اظہار پولس رسول نے اپنے اِن الفاظ میں کیا ہے "خدا نے مسیح میں ہو کر اپنے ساتھ دُنیا کا میل ملاپ کر لیا اور اُن کی تقصیروں کو اُن کے ذمہ نہ لگایا اور اُس نے میل ملاپ کا پیغام ہمیں سونپ دیا ہے" (2-کرنتھیوں 5: 19)۔

کتاب مُقدّس کی زبان میں یسوع کے فدیہ و مخلصی کو "فضل" کے لفظ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہمارا آسمانی باپ اِس بات کا پابند نہیں تھا کہ گنہگار انسانیت کےلئے ایک قربانی مہیا کرے۔ نہ ہی بیٹا جسم میں آنے اور مخلصی کے منصوبے کو پورا کرنے کےلئے مجبور تھا۔ اپنی عظیم محبت اور رحمت میں غنی ہونے کی وجہ سے خدائے کامل نے شریعت کی سزاﺅں کے تقاضے کی سمت بدل دی۔ خدا نے اُن دُکھوں کو قبول کیا جو مجسم بیٹے نے عوضی کے طور پر بہ رضا و رغبت گنہگار کی جگہ برداشت کئے۔ ہمارے خداوند یسوع مسیح نے اِس سچائی کا اعلان اُس وقت کیا جب کہا "میں بھیڑوں کےلئے اپنی جان دیتا ہوں" (یوحنا 10: 15)۔ "اِس سے زیادہ محبت کوئی شخص نہیں کرتا کہ اپنی جان اپنے دوستوں کےلئے دے دے" (یوحنا 15: 13)۔

ہمارے مبارک خداوند نے جو کچھ کیا اُس کے سبب کی وضاحت اِن بیانات میں کی گئی ہے۔ اگرچہ وہ قُدُّوس ہے لیکن اُس نے انسانی جسم اختیار کرنا قبول کیا اور صلیب پر اپنے جسم میں ہمارے گناہوں کو برداشت کرتے ہوئے دُکھ اُٹھایا۔

رومیوں کے نام اپنے خط میں پولس رسول نے اِن عوضی دُکھوں کی ضرورت کو واضح کیا ہے "اِس لئے کہ جو کام شریعت جسم کے سبب سے کمزور ہو کر نہ کر سکی وہ خدا نے کیا یعنی اُس نے اپنے بیٹے کو گناہ آلودہ جسم کی صورت میں اور گناہ کی قربانی کےلئے بھیج کر جسم میں گناہ کی سزا کا حکم دیا۔ تا کہ شریعت کا تقاضا ہم میں پورا ہو جو جسم کے مطابق نہیں بلکہ روح کے مطابق چلتے ہیں" (رومیوں 8: 3- 4)۔

باالفاظ دیگر، ابدی موت جو ہماری سزا تھی وہ گناہ کی مزدوری تھی، اور مسیح نے اُسے ہماری جگہ نمائندہ کے طور پر اپنے اوپر لے لیا۔ یہ نبوتی قول کے مطابق ہے "حالانکہ وہ ہماری خطاﺅں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بدکرداری کے باعث کچلا گیا۔ ہماری ہی سلامتی کےلئے اُس پر سیاست ہوئی تا کہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں" (یسعیاہ 53: 5)۔

بہت سے لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہے سزا دیتا ہے۔ یہ بیان خدا تعالیٰ کی سچائی کے موافق نہیں جس کا اظہار اُس کے انتباہات اور وعدوں میں ملتا ہے۔ معافی کےلئے ایک کفارہ بخش قربانی اُس کے عدل کا تقاضا ہے۔ اِس اصول سے آگاہی شروع ہی سے تھی; یہ پرانے عہدنامہ کے صفحات میں ایک قرمزی دھاگے کی مانند پروئی ہوئی سچائی ہے۔ یہ خون بہاتی ہے اور ہر نسل میں پکارتی ہے "بغیر خون بہائے معافی نہیں ہوتی۔" حقیقت یہ ہے کہ اگر خدا تعالیٰ اپنی تمام صفات میں کامل ہے تو اُسے حق و عدالت کی بنا پر انسان کو اُس کی خطاﺅں کو معاف نہیں کرنا۔ حزقی ایل نبی نے فرمایا "جو جان گناہ کرتی ہے وہی مرے گی۔ بیٹا باپ کے گناہ کا بوجھ نہ اُٹھائے گا اور نہ باپ بیٹے کے گناہ کا بوجھ۔ صادق کی صداقت اُسی کےلئے ہو گی اور شریر کی شرارت شریر کےلئے" (حزقی ایل 18: 20)۔

اگر خدا کسی فرد کی خطائیں معاف کرتا ہے تو اُس کی معافی کا کوئی نہ کوئی لازم سبب بھی ہونا چاہئے: ایک ایسا سبب جو خدا کی پاکیزگی اور اُس کے ساتھ ساتھ اُس کے عدل کی تشفی کرے۔

یہ تشفی پرانے عہدنامہ کے وقتوں میں خون کی قربانیاں گذراننے سے ہوتی تھی جو مسیح کی علامت تھیں۔ اب عہد جدید میں یہ مسیح کی قربانی سے حاصل ہوتی ہے جس نے ساری راستبازی کو پورا کیا۔

مسیح کی قربانی کی خصوصیات میں یہ بات شامل ہے کہ وہ نہ صرف انسان کے گناہ کو دُور کرتی ہے بلکہ اُسے گناہ جیسی اخلاقی بیماری سے شفا بھی دیتی جاتی ہے۔ وہ جو مسیح مصلوب کو قبول کرتا ہے وہ نئی زندگی پاتا ہے۔ وہ گناہ کے تباہ کن عمل اور اُس کی خوفناک سزا کو دیکھنا شروع کر دیتا ہے اور اُس کی مشق نہیں کرتا۔ اِسی وجہ سے رسول نے یہ کہا "جو کوئی خدا سے پیدا ہوا ہے وہ گناہ نہیں کرتا کیونکہ اُس کا تخم اُس میں بنا رہتا ہے بلکہ وہ گناہ کر ہی نہیں سکتا کیونکہ خدا سے پیدا ہوا ہے" (1-یوحنا 3: 9)۔

سوال-7

کتاب مُقدّس مسیح کی الوہیت کو ثابت نہیں کرتی۔ کیا جناب موسیٰ اِس سے واقف تھے اور کیا اُنہوں نے اِسے لوگوں سے چھپایا، یا وہ اِس سے ناواقف تھے؟

جواب:

موسیٰ نبی خدا کی ذات کے تین اقانیم سے ناواقف نہیں تھے، اور اُنہوں نے اِسے چھپایا نہیں، بلکہ اُنہوں نے اُن پانچ کتابوں میں جو اُنہوں نے الہام سے تحریر کیں اور جو توریت کہلاتی ہیں اُن میں کئی جگہوں پر اِس کا ذِکر کیا، مثلاً:

٭پہلی آیت جو موسیٰ نبی نے الہامی کلام میں درج کی، بیان کرتی ہے "خدا (ایلوہیم) نے ابتدا میں زمین و آسمان کو پیدا کیا" (پیدایش 1: 1)۔ لفظ "ایلوہیم" توریت میں جمع کے صیغہ میں استعمال ہوا ہے، جو اشارہ کرتا ہے کہ خدا کی وحدانیت جامعیت پر مبنی ہے۔

٭جناب موسیٰ نے یہ بھی لکھا: "سُن اے اسرائیل! خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے" (استثنا 6: 4)۔ الفاظ "ہمارا خدا" اِس متن میں صیغہ جمع میں اِس آگہی کے ساتھ استعمال ہوئے ہیں کہ یہاں مقصد واحدانیت پر زور ہے۔ قابل ذِکر امر یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اپنے لئے ضمیر جمع کئی آیات میں استعمال کیا ہے جو ہمارے لئے موسیٰ نے تحریر کی ہیں: "پھر خدا نے کہا کہ ہم انسان کو اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند بنائیں" (پیدایش 1: 24)۔ "اپنی صورت پر اپنی شبیہ کی مانند" کا مطلب جسمانی نہیں بلکہ عقلی و روحانی ہے۔

٭"دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا۔" (پیدایش 3: 22)

٭"سو آﺅ ہم وہاں جا کر اُن کی زبان میں اختلاف ڈالیں۔" (پیدایش 11: 7)

یہ حوالہ جات اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ خدا اپنے جوہر میں ایک ہے اور اقانیم میں تثلیث۔ اِس سے پہلے کہ ہم اِس عقیدے کا مطالعہ کریں یا اِس پر ترتیب وار بحث کریں، بہتر ہے کہ ہم مسیح کی کلیسیا میں اِس کی تاریخ سے واقفیت حاصل کریں، اور اِس سے پہلے کہ یہ غیر متغیر حتمی صورت میں سامنے آیا جو افکار اِس نے آگے منتقل کئے، اُن سے واقفیت حاصل کریں۔

رسولوں کے ایّام میں اور دوسری صدی عیسوی کے شروع تک مسیحیوں نے مسیحی عقائد کو معین وضع دینے کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔ جیسے یہ اصول کتاب مُقدّس میں بیان کئے گئے تھے ویسے وہ اِن کی مشق کرتے رہے۔ جب اُنہیں مشکلات و مسائل کا سامنا ہوتا تو وہ رسولوں یا اُن کے شاگردوں سے رجوع کرتے۔ تاہم، جب مسیحیت دُنیا میں پھیلی تو بعض بدعتی فرقے سامنے آئے اور صورتحال بدل گئی۔ کلیسیا کےلئے فوری طور پر ضروری ہو گیا کہ وہ دو ٹوک الفاظ میں اپنی تعلیم کا اعلان کرے خاص طور پر جب آریوس اور سبیلئس کی غلط تعلیم پھیلنی شروع ہوئی۔ اِن افراد نے خداوند یسوع مسیح اور روح القدس کی الوہیت کے بارے میں عقائد کی مخالفت کی۔ اِن بدعتی آراء کو بے نقاب کرنے کےلئے ممتاز مسیحی راہنما سامنے آئے، جن میں سے سب سے زیادہ مشہور مُقدّس اتھناسیس تھا جس نے اُن بدعتی فرقوں کی مخالفت کی اور مشہور اتھناسیس کے عقیدہ کو جاری کیا۔ جو کہ ذیل میں بیان کیا گیا ہے:

(1) طالبِ نجات ہر چیز سے پہلے مسیحی کلیسیا کے جامع ایمان کا یقین کرے۔

(2) اِس ایمان کو اگر کوئی بے کم و کاست اور خالص نہ رکھے تو وہ بے شک ابدی ہلاکت میں پڑے گا۔

(3) اور عالمگیر ایمان یہ ہے کہ ہم واحد خدا کی پرستش ثالوث میں اور ثالوث کی پرستش توحید میں کریں۔

(4) نہ اقانیم کو مخلوط کریں نہ جوہر کو تقسیم۔

(5) کیونکہ اقنومیت باپ کی اَور ہے، بیٹے کی اَور، رُوح القدس کی اَور۔

(6) لیکن باپ بیٹے اور رُوح القد س کی الوہیت ایک ہی ہے، جلال برابر، عظمت یکساں ازلی۔

(7) جیسا باپ ہے، ویسا ہی بیٹا اور ویسا ہی رُوح القدس ہے۔

(8) باپ غیر مخلوق، بیٹا غیر مخلوق، رُوح القدس غیر مخلوق۔

(9) باپ غیر محدود، بیٹا غیر محدود، رُوح القدس غیر محدود۔

(10) باپ ازلی، بیٹا ازلی، رُوح القدس ازلی۔ تاہم تین ازلی نہیں، بلکہ ایک ہی ازلی ہے۔

(11) اِسی طرح نہ تین غیرمحدود ہیں، نہ تین غیر مخلوق، بلکہ ایک ہی غیر مخلوق اور ایک ہی غیر محدود ہے۔

(12) اِسی طرح باپ قادر مطلق، بیٹا قادر مطلق، رُوح القدس قادر مطلق ہے۔ تو بھی تین قادر مطلق نہیں، بلکہ ایک ہی قادر مطلق ہے۔

(13) ویسا ہی باپ خدا، بیٹا خدا، رُوح القدس خدا ہے۔ تاہم تین خدا نہیں، بلکہ ایک ہی خدا ہے۔

(14) اِسی طرح باپ خداوند، بیٹا خداوند، رُوح القدس خداوند ہے۔ پھر بھی تین خداوند نہیں، بلکہ ایک ہی خداوند ہے۔

(15) کیونکہ جس طرح مسیحی سچائی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم یہ اعتراف نہ کریں کہ ہر اقنوم جداگانہ خدا اور خداوند ہے۔ اُسی طرح دین جامع بھی ہمیں منع کرتا ہے کہ ہم تین خداﺅں اور تین خداوندوں کو مانیں۔

(16) باپ نہ کسی سے مصنوع ہے، نہ مخلوق، نہ مولود۔ بیٹا صرف باپ ہی سے ہے، نہ مصنوع ہے نہ مخلوق بلکہ مولود۔ رُوح القدس باپ اور بیٹے سے ہے، نہ مصنوع، نہ مخلوق، نہ مولود بلکہ صادر ہے۔

(17) پس ایک باپ ہے، تین باپ نہیں۔ ایک بیٹا ہے، تین بیٹے نہیں۔ ایک ہی رُوح القدس ہے، تین رُوح القدس نہیں۔

(18) اور اِس ثالوث میں کوئی ایک دوسرے سے پہلے یا پیچھے نہیں، نہ کوئی ایک دوسرے سے بڑا یا چھوٹا ہے۔

(19) بلکہ تینوں اقانیم یکساں، ازلی اور باہم برابر ہیں۔

(20) الغرض ہر امر میں جیسا کہ اُوپر بیان ہوا ہے، واحد کی پرستش تثلیث میں اور ثالوث کی پرستش توحید میں کرنی واجب ہے۔

(21) پس جو کوئی نجات چاہے، ثالوث کو یوں ہی مانے۔

(22) علاوہ اِس کے ابدی نجات کےلئے ضرور ہے کہ وہ ہمارے خداوند یسوع مسیح کے تجسم پر بھی صحیح ایمان رکھے۔

(23) کیونکہ صحیح ایمان یہ ہے کہ ہم اعتقاد رکھیں اور اقرار بھی کریں کہ ہمارا خداوند یسوع مسیح جو خدا کا بیٹا ہے، خدا بھی ہے اور انسان بھی۔

(24) وہ خدا ہے باپ کے جوہر سے سب عالموں سے پیشتر مولود، اور انسان ہے جو اپنی ماں کے جوہر سے اِس عالم میں پیدا ہوا۔

(25) وہ کامل خدا اور کامل انسان ہے، نفسِ ناطقہ اور انسانی جسم سے موجود۔

(26) الوہیت کی راہ سے باپ کے برابر، انسانیت کی راہ سے باپ سے کمتر۔

(27) وہ اگرچہ خدا اور انسان ہے، تاہم دو نہیں بلکہ ایک ہی مسیح ہے۔

(28) ایک ہی ہے اِس طور پر نہیں کہ الوہیت کو جسمانیت سے بدل ڈالا، بلکہ اِس طور پر کہ انسانیت کو الوہیت میں لے لیا۔

(29) وہ مطلقاً ایک ہے، جوہروں کے اختلاط سے نہیں بلکہ اقنوم کی یکتائی سے۔

(30) کیونکہ جس طرح نفسِ ناطقہ اور جسم مل کر ایک انسان ہوتا ہے، اُسی طرح خدا اور انسان مل کر ایک مسیح ہے۔

(31) اُس نے ہماری نجات کے واسطے دُکھ اُٹھایا، عالم ارواح میں اُتر گیا، اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھا۔

(32) آسمان پر چڑھ گیا اور خدا قادر مطلق باپ کے دہنے بیٹھا ہے۔

(33) وہاں سے وہ زندوں اور مُردوں کی عدالت کرنے کےلئے آنے والا ہے۔

(34) اُس کی آمد پر سب آدمی اپنے اپنے بدن کے ساتھ جی اُٹھیں گے، اور اپنے اپنے اعمال کا حساب دیں گے۔

(35) تب جنہوں نے نیکی کی ہے وہ ابدی زندگی میں، اور جنہوں نے بدی کی ہے وہ ابدی آگ میں داخل ہوں گے۔

(36) ایمان جامع یہی ہے۔ اِس پر اگر کوئی سچے دل سے اعتقاد نہ رکھے تو وہ نجات کو حاصل نہ کر سکے گا۔

مختصر یہ کہ گو تثلیث میں تین اقانیم باپ، بیٹا اور روح القدس ہیں لیکن خدا ایک ہی خدا ہے: جو تین اقانیم میں واحد جوہر ہے۔ تثلیث کا جوہر منقسم نہیں ہے۔ اِس لئے، ہر ایک اقنوم اُس کا ایک خاص جز نہیں رکھتا بلکہ وہی جوہر رکھتا ہے جو دوسرے کا ہے۔ انسانی ذہن اِس سب کو نہ پوری طرح سے سمجھ سکتا ہے اور نہ اُن کے تعلق کے بھید کا ادراک کر سکتا ہے، لیکن کتاب مُقدّس اِس بھید کی ہمیں وضاحت پیش کرتی ہے۔ ہر فلسفیانہ فکر یا منطقی نکتہ جو کتاب مُقدّس سے باہر سے تعلق رکھتا ہے وہ صحائف کی وضاحت صرف قیاس پر کرتا ہے۔

یہ تاریخ کی ایک معروف حقیقت ہے کہ قدیم مسیحی تثلیث کے عقیدہ سے واقف تھے۔ اُنہوں نے الہامی مُقدّس صحائف کی روشنی میں اِس کا مطالعہ کیا۔ وہ اِس پر ایمان رکھتے تھے۔ اُنہوں نے کلیسیا کے قوانین میں اِس کا اظہار کیا۔ اِن میں سے سب سے زیادہ مشہور نقایہ کا عقیدہ ہے، جو یوں ہے:

"میں ایمان رکھتا ہوں ایک خدا قادر مطلق باپ پر جو آسمان و زمین اور سب دیکھی اور اندیکھی چیزوں کا خالق ہے۔

اور ایک خداوند یسوع مسیح پر جو خدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ کُل عالموں سے پیشتر اپنے باپ سے مولود، خدا سے خدا، نور سے نور، مصنوع نہیں بلکہ مولود۔ اُس کا اور باپ کا ایک ہی جوہر ہے۔ اُس کے وسیلے سے کُل چیزیں بنیں۔ وہ ہم آدمیوں کےلئے اور ہماری نجات کے واسطے آسمان پر سے اُتر آیا۔ اور رُوح القدس کی قدرت سے کنواری مریم سے مجسم ہوا اور انسان بنا۔ اور پینطس پیلاطس کے عہد میں ہمارے لئے مصلوب بھی ہوا۔ اُس نے دُکھ اُٹھایا اور دفن ہوا۔ اور تیسرے دن پاک نوشتوں کے بموجب جی اُٹھا۔ اور آسمان پر چڑھ گیا۔ اور باپ کے دہنے بیٹھا ہے۔ وہ جلال کے ساتھ زندوں اور مُردوں کی عدالت کےلئے پھر آئے گا۔ اُس کی سلطنت ختم نہ ہو گی۔

اور میں ایمان رکھتا ہوں روح القدس پر جو خداوند ہے اور زندگی بخشنے والا ہے۔ وہ باپ اور بیٹے سے صادر ہے۔ اُس کی باپ اور بیٹے کے ساتھ پرستش و تعظیم ہوتی ہے۔ وہ نبیوں کی زبانی بولا۔ میں ایک پاک کیتھولک رسولی کلیسیا پر ایمان رکھتا ہوں۔ میں ایک بپتسمہ کا جو گناہوں کی معافی کےلئے ہے اقرار کرتا ہوں۔ اور مُردوں کی قیامت اور آیندہ جہان کی حیات کا انتظار کرتا ہوں۔ آمین۔"

اسلام میں تثلیث

یہ واضح ہے کہ اسلام نے مشرکانہ تعلیمات کا مقابلہ کیا۔ ذیل میں اُن متون کا ذِکر کیا جا رہا ہے جو اسلام نے تعلیمات باطلہ سے لڑنے میں استعمال کئے:

(1) "اور یہ نہ کہو کہ خدا تین ہیں اِس اعتقاد سے باز آﺅ کہ ایسا کرنا تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اللہ ہی معبود واحد ہے۔" (سورہ نساء 4: 171)

(2) "اللہ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری والدہ کو معبود مقرر کرو؟" (سورہ مائدہ 5: 116)

(3) "وہ لوگ بھی کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے۔" (سورہ مائدہ 5: 73)

اِن آیات سے یہ واضح ہے کہ اسلام ایک ایسی تعلیم کی مخالفت کر رہا تھا جو خدا تعالیٰ کی ذات میں شرک کر رہی تھی اور کئی خداﺅں کو مان رہی تھی۔ مسیحیت نے شرک یا کئی خداﺅں کو ماننے کی تعلیم نہیں دی۔ مسیح کے الفاظ گواہ ہیں: "تُو خداوند اپنے خدا کو سجدہ کر اور صرف اُسی کی عبادت کر" (متی 4: 10)۔

اِس لئے واضح ہے کہ اسلام مسیحی تثلیث فی التوحید کے عقیدہ کا نہیں بلکہ تین خداﺅں کی بدعتی تعلیم کا مقابلہ کر رہا تھا۔ وہ ایک اَور تعلیم ایک اَور عقیدے سے نبرد آزما تھے۔

واضح طور پر شرک کے خلاف اسلامی حملے خاص بدعتی گروہ یا گروہوں کے خلاف تھے۔ یہ شروع اسلام کے زمانے میں سامنے آیا اور اِس کی مخالفت نہ صرف اہل اسلام نے کی بلکہ مسیحیت نے بھی نہایت شدت سے اِس کی مخالفت کی یہاں تک کہ یہ ختم ہو گیا۔ اِس بات کا ذِکر میں نے اپنے ایک گذشتہ جواب میں بھی دیا ہے۔

ایک بار پھر میں کہنا چاہوں گا کہ مسیحیت خداﺅں کی زیادہ تعداد کی تعلیم نہیں دیتی اور یہ نہیں کہتی کہ مسیح خدا سے جدا خدا ہے۔ بلکہ مانتی ہے کہ باپ اور بیٹا دونوں تعدد اور افتراق کے بغیر ایک خدا ہیں۔ مسیح نے اِس کی تصدیق کی جب کہا کہ "میں اور باپ ایک ہیں" (یوحنا 10: 30)۔ مسیحیت یہ تعلیم نہیں دیتی کہ مبارک مریم خدا ہے۔ نہ ہی مُقدسہ مریم نے اپنے لئے الوہیت کا دعویٰ کیا۔ بلکہ اقرار کیا "میری جان خداوند کی بڑائی کرتی ہے۔ اور میری رُوح میرے منجی خدا سے خوش ہوئی" (لوقا 1: 46- 47)۔

جہاں تک قرآنی الفاظ "وہ لوگ بھی کافر ہیں جو اِس بات کے قائل ہیں کہ اللہ تین میں کا تیسرا ہے" (سورہ مائدہ 5: 73) کا تعلق ہے، تو یہ مخالفینِ مسیحیت کے مقتبس شدہ الفاظ ہیں جیسے کہ مرقونی۔ اِن لوگوں کو کلیسیا سے نکالا جا چکا تھا کیونکہ یہ تین خداﺅں کی عبادت کی تعلیم دیتے تھے جو یہ تھے:

(1) عادل - وہ خدا جس نے توریت کو نازل کیا۔

(2) صالح - وہ خدا جس نے توریت کو انجیل سے منسوخ کیا۔

(3) شریر - یعنی شیطان۔

اسلام نے دو اَور بدعتوں کا مقابلہ کیا۔ مانی اور دیصانی۔ یہ دو خداﺅں پر ایمان رکھتے تھے۔ ایک خدا خیر کےلئے تھا جسے نور کا جوہر کہتے تھے۔ دوسرا شر کےلئے تھا جو تاریکی کا جوہر تھا۔ یہ بدعات اسلام سے پہلے اور بعد میں مسیحیت کی مخالف تھیں۔ اب بھی کلیسیا اِنہیں بدعتی اور نکالے ہوئے قرار دیتی ہے جیسے اہل اسلام خارجیوں کو سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ کتاب و سنت سے دُور ہو گئے جیسے کہ وہ گروہ جس نے دعویٰ کیا کہ خدا فاطمی بادشاہ حاکم میں رہتا تھا۔

سو، دینِ اسلام تثلیث کی صحیح مسیحی تعلیم کی مخالفت نہیں کرتا، جیسا کہ کچھ سمجھتے ہیں بلکہ بدعات کی مخالفت کرتا ہے۔ اِس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ قرآنی آیات جو اُن کے بارے میں ہیں جو کئی خداﺅں پر ایمان رکھتے تھے حقیقتاً سچی مسیحیت کے بارے میں نہیں تھیں۔

جب ہم اسلامی تحریروں میں اِس موضوع کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ جیسے انبیا نے مسیحی عقیدہ تثلیث پر بحث کی اور اُس کی صحیح ہونے کی تصدیق کی ویسے ہی مسلم علما نے کیا۔ یہ اقتباس کرنا کافی ہے جو "اصول الدین" نامی کتاب کے ایک قدیم نسخہ میں لکھا ہے۔ اِسے ابی الخیر بن الطیّب نے لکھا جو امام ابا حامد الغزالی کے زمانہ سے تعلق رکھتا تھا۔ اُس نے کہا: "بعض مسیحیوں نے ابی الخیر بن الطیّب سے کہا 'انجیل جب بیان کرتی ہے کہ جاﺅ اور سب قوموں کو تعلیم دو اور اُنہیں باپ اور بیٹے اور روح القدس کے نام سے بپتسمہ دو' تو تین خداﺅں پر اعتقاد کی بات کرتی ہے۔ جواب ملا 'کوئی شک نہیں کہ انجیل اور اُس کے ساتھ ساتھ پولس کے خطوط اور دوسرے شاگردوں کی تحریریں مسیحی شریعت کےلئے بنیادی ہیں۔ یہ تحریریں اور تمام دُنیا کے مسیحی علما کے اقوال گواہی دیتے ہیں کہ وہ ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور باپ، بیٹے اور رُوح القدس کے نام اُس ذاتِ واحد کے خواص ہیں۔ اگر مجھے یہ تفصیل سے بیان کرنا پڑتا تو میں مفصل ثبوت دے سکتا تھا۔ اِس لئے میں مسیحی ایمان کی صحت کے بارے میں معتقد ہوں۔ اُن کے ایمان کا لب لُباب یہ ہے: وہ کہتے ہیں کہ باری تعالیٰ جوہر واحد ہے جس کا وصف کمال ہے۔ وہ ذاتی خواص رکھتا ہے جنہیں مسیح نے منکشف کیا۔ اور وہ یہ ہیں: باپ، بیٹا اور رُوح القدس۔ وہ اشارہ کرتے ہیں اُس جوہر کی طرف جسے وہ باری تعالیٰ یا باپ کہتے ہیں جو مطلق عقل کا حامل ہے۔ اور وہ اُسی جوہر کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بیٹے کے طور پر عاقل عقل کا حامل ہے۔ اور وہ اُسی جوہر کو جو معقول عقل کا مالک ہے رُوح القدس کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ اِس تناظر میں جوہر وہ ہے جو قائم بالذات حالات و واقعات سے آزاد ہے۔"

مشہور مسلم عالم امام ابو حامد محمد الغزالی نے اپنی کتاب "الرد الجمیل" میں مسیحی عقیدہ تثلیث کا ذِکر کیا ہے: "مسیحی ایمان رکھتے ہیں کہ ذات باری تعالیٰ جوہر میں واحد ہے اور اِس کے یہ معانی ہیں: جب یہ وجود کسی دوسرے پر منحصر نہیں تو وہ مطلق وجود ہے، اور وہ اِسے باپ کا اقنوم کہتے ہیں۔ اگر اِسے کسی اَور وجود پر منحصر سمجھا جائے جیسے علم جس کا انحصار عالم پر ہے، تو وہ اُسے بیٹے کا اقنوم یا کلمہ کہتے ہیں۔ اگر اِسے صادر ہونے کےلئے اُس کے اختیار پر منحصر سمجھا جائے تو وہ وجود رُوح القدس کا اقنوم کہلاتا ہے کیونکہ ذات باری تعالیٰ کا وجود اُس سے سامنے آتا ہے۔ اِس اصطلاحی تعبیر کا نتیجہ یہ ہے کہ خدا کی ذات اپنے جوہر میں واحد ہے، گو کہ اِس میں تثلیث کے اقانیم کی صفات پائی جاتی ہیں۔"

اُس نے یہ بھی کہا: "خدا کی ذات بغیر ایک جسم کے ناقابل بیان وجود ہے جو عقل کے معنٰی دیتا ہے اور اِسے باپ کا اقنوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ اختیار مطلق کے خود کے اظہار یعنی عاقل پر غور کریں تو اِسے بیٹے یا کلمہ کا اقنوم کہا جاتا ہے۔ اگر آپ جو اُس سے صادر ہوتا ہے اُس پر غور کریں یعنی معقول تو وہ رُوح القدس کہلاتا ہے۔ اِن اصطلاحات کے مطابق عقل کا تعلق خدا کی ذات سے ہے اور اِس سے مراد باپ ہے۔ عاقل اُس کی اپنی ذات کا اظہار ہے اور اِس سے مراد بیٹا یا کلمہ ہے۔ معقول خدا کا اظہار ہے جو اپنی ذات میں معقول ہے اور اِس سے مراد رُوح القدس ہے۔"

پھر اُس نے کہا: "اگر یہ تمام معانی صحیح ہیں، تو پھر بولنے والوں کے الفاظ اور اصطلاحات میں کوئی مسئلہ نہیں۔"

امام فخر الدین الرازی نے مسیحی عقیدہ تثلیث کو یوں بیان کیا ہے: "علما نے ذِکر کیا ہے کہ مسیحیت ایک جوہر اور تین اقانیم باپ، بیٹا اور رُوح القدس کی بات کرتی ہے۔ یہ تین اقانیم ایک خدا ہیں۔ جیسے سورج کی ایک قرص نما شکل ہے، کرنیں ہیں اور حرارت ہے، سو مسیحی کہتے ہیں کہ ذات خدا باپ ہے، بیٹا کلام ہے، اور رُوح القدس زندگی ہے۔ مسیحی یہ بھی ایمان رکھتے ہیں کہ باپ خدا ہے، بیٹا خدا ہے، اور رُوح القدس خدا ہے۔ اور یہ سب واحد خدا ہے" (التفسیر الکبیر جُز 12، صفحہ 102)۔

ایک اَور مصنف نے جناب علی بن وفا کا اقتباس کرتے ہوئے لکھا: "ذات سے مراد ایک ہے جس میں کوئی کثرت یا تعدد نہیں۔ تاہم، معتزلہ نے تعدد کی بات کی جسے قدیم لو گ صفات کے اعتبار سے لیتے تھے۔ یہ مروّجہ کثرت ہے جو حقیقی وحدت کا انکار نہیں کرتی، جیسے جڑ کی نسبت سے ایک درخت کی شاخ، یا ہتھیلی کے حوالے سے انگلیاں۔"

کتاب "الملل و النحل" میں ابو ھذیل حمدان، معتزلہ کے شیخ اور اُس طریقت کے قائد بیان کرتے ہیں: "باری تعالیٰ عالم ہے جو علم رکھتا ہے اور اُسے اپنی ذات کا علم ہے، قادر ہے جس کے پاس قدرت ہے، اور اُس کی قدرت اپنی ذات ہے، اور زندگی کے ساتھ زندہ ہے اور اُس کی زندگی اپنی ذات ہے۔ ممکن ہے کہ ابو ھذیل نے یہ تصور اُن فلسفیوں سے مُقتبس کیا جو اعتقاد رکھتے تھے کہ باری تعالیٰ کی ذات واحد ہے اور اُس میں کثرت نہیں۔ تاہم، صفات اُس کی ذات سے جُدا نہیں ہیں، یقیناً اُس کی ذات میں قائم ہیں، بلکہ اُس کی ذات ہیں۔ الفاظ "عالم ہے جو اپنی ذات کا علم رکھتا ہے" میں فرق یہ ہے کہ یہ صفت کی نفی ہے اور پھر ذات کا اثبات بذات ِخود صفت کی مانند ہے۔ یا پھر یہ کہ اثبات ِصفت خود ذات کی مانند ہے۔ اگر ابو ھذیل ذات میں صفات کو ثابت کرنے میں کامیاب ہوا تو پھر وہ یقیناً نصاری کے اقانیم کی طرح ہیں۔"

ابن سینا، الملقب بالرئیس کا کہنا ہے: "واجب الوجود (خدا) عقل، عاقل اور معقول ہے۔ وہ اپنی ذات اور دیگر اشیا کا ادراک رکھتا ہے۔ لیکن اُس کی ایجابی اور سلبی (مثبت اور منفی) صفات کا لازمی طور پر ذات میں کثرت کا مفہوم نہیں نکلتا۔ اگر یہ اپنی ذات میں مجرد ہے، تو پھر یہ اپنی ذات کی عقل ہے۔ واجب الوجود (خدا) مادے سے جُدا اور ذات میں مجرد ہے اِس لئے وہ اپنی ذات میں عقل ہے۔ چونکہ ہم اُس کے مجرد ہونے کو ذات لے رہے ہیں تو پھر وہ اپنے آپ میں معقول ہے، اور اگر اُس کی ذات مجرد ہے تو پھر وہ اپنی ذات میں عاقل ہے۔ اب لازم نہیں ہے کہ عاقل اور معقول ہونے کا مطلب ذات کا دوہرا پن ہو۔"

ابن سینا کا بیان کردہ نکتہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ عقل، عاقل اور معقول ہے، اور ابو ھذیل کی طرف سے سامنے لایا گیا نکتہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ علم، عالم اور معلوم ہے۔ بشری عقل اِس بات کو یا اِس حقیقت کو نہیں سمجھ سکتی کہ وہ مرکب نہیں ہے۔ وہ واحد، کسی بھی ترکیب سے جدا ہے۔

چند مسلم علما کا اقتباس کرنے کا مقصد خدا کی ذات کے اقانیم ثلاثہ کا اُن کے خیالات کے ساتھ موازنہ کرنا نہیں تھا، (کتاب مُقدّس ہمیں فرق بات سکھاتی ہے)، بلکہ متلاشیانِ حق پر اِس بات کو واضح کرنا ہے کہ مسیحی، خدا کی واحد ذات میں تعدد یا ترکیب پر اعتقاد نہیں رکھتے۔ مسیحی ایمان ہمیں سکھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا وجود اقانیم ثلاثہ میں ہے اور یہ اقانیم واحد خدا کے مختلف ظہور نہیں ہیں۔ اِس لئے، ذاتِ الہٰی میں اقنوم ثانی کے اقنوم اوّل کے ساتھ بیٹے کے تعلق کا مطلب ایک انسانی پیدایش نہیں ہے جیسا کہ عموماً ہم سوچتے ہیں، بلکہ یہ ذات الہٰی میں دونوں اقانیم کے درمیان ایک ابدی تعلق کو بیان کرنے کےلئے استعمال کی جانے والی ایک اصطلاح ہے، جیسا کہ اصطلاح صادر ذات الہٰی میں تیسرے اقنوم اور پہلے اور دوسرے اقانیم کے درمیان ابدی تعلق کو بیان کرتی ہے۔

اصطلاح "کلمہ" جو کتاب مُقدّس میں مسیح کےلئے استعمال ہوئی ہے اور بعد ازاں اسلام میں اِس کا اقتباس کیا گیا، اقنوم اوّل اور اقنوم ثانی کے درمیان وحدت کو ظاہر کرتی ہے۔ اگر ایک مسلمان قرآنی متن کا جائزہ لے تو اُسے پتا چلے گا کہ اصطلاح "کلمتہ اللہ" خدا تعالیٰ کی ذات کی ایک ابدی صفت ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔

خلاصہ یہ ہے کہ خدا محض تین مختلف ظہوروں کے ساتھ واحد نہیں ہے جیسا کہ سوال کرنے والا سمجھتا ہے بلکہ وہ قدرت، عظمت اور جلال میں برابر اقانیم ثلاثہ واحد ہے۔ جیسے اُس کی صفات تفاوت سے جُدا ہیں ویسے ہی ذاتِ الہٰی میں تین اقانیم بھی ہیں۔

علم الہٰیات ہمیں یہ اعتقاد رکھنے سے منع نہیں کرتا کہ ازلی کلمہ نے انسانی جسم اختیار کیا، تاہم وہ محدود یا فانی نہیں ہو گیا، کیونکہ وہ غیر محدود اور غیر فانی روح ہے جس میں کوئی کمی بیشی نہیں ہو سکتی۔

اِس لئے، خدا کی ذات میں یا اُس کے ازلی و سرمدی جوہر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، اور نہ ہی ذات الہٰی کے اقانیم میں کوئی فرق ہے۔ وہ واحد، قوت و قدرت میں برابر ہیں، حتیٰ کہ تب بھی جب مسیح انسان بن گیا۔ کیونکہ وہ علم، مشیئت اور عقل میں واحد ہیں۔

مسیح نے فرمایا "جن کاموں کو وہ کرتا ہے اُنہیں بیٹا بھی اُسی طرح کرتا ہے" (یوحنا 5: 19)۔ پولس نے کہا "اِسی طرح خدا کے روح کے سوا کوئی خدا کی باتیں نہیں جانتا" (1-کرنتھیوں 2: 11)۔ ذات الہٰی میں تثلیث میں کوئی فرق نہیں۔ بیٹا مجسم ہوا اور اُس نے اپنا آپ دُنیا کے کفارہ کےلئے نذر کر دیا۔ رُوح القدس ہمارے دِلوں کو نیا بناتا ہے۔ باپ نے بیٹے کو بھیجا جو ذات واحد میں تمام صفاتِ کمالیہ رکھتا ہے۔ بلا شک و شبہ یہ ہمارے ادراک سے پرے ہے۔ پولس نے رومیوں 11: 33 میں خدا تعالیٰ کے بارے میں کہا "واہ! خدا کی دولت اور حکمت اور علم کیا ہی عمیق ہے! اُس کے فیصلے کس قدر اِدراک سے پرے اور اُس کی راہیں کیا ہی بے نشان ہیں!"

اِس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اِس حقیقت کا اعتراف کرتا ہے۔ شیخ محی الدین نے ”کتاب الباب“ کے صفحہ 322 پر لکھا: "وہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں گہرے طور پر تحقیق کرتا ہے اُس نے اللہ اور اُس کے رسولوں کے خلاف گناہ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم نہیں دیا کہ اُس کی ذات کے علم کی گہرے طور پر تحقیق کریں۔ اگر بندہ اپنے نفس کی پوری معرفت نہیں رکھتا تو وہ کیسے حق تعالیٰ کی معرفت رکھ سکتا ہے؟"

وہ صفحہ نمبر 373 پر لکھتا ہے: "حق تعالیٰ کو فکری نظر کے ذریعے پوری طرح سے سمجھا نہیں جا سکتا۔ وہ جو اللہ کی ذات کو اپنے ذہن کے ذریعے جاننے کی کوشش کرتے ہیں گنہگار عظیم ہیں۔ وہ جہالت کے انتہائی درجات تک چلے جاتے ہیں۔"

عمّانوایل "خدا ہمارے ساتھ"

905ء میں الازہر میں کئی مسلم شیوخ ایک خط پر بحث کرنے کےلئے اکھٹے ہوئے۔ اُن کے اجتماع میں بحث کا موضوع تھا "خدا ہمارے ساتھ۔" شیخ برہان الدین نے کہا: "خدا ہمارے ساتھ اپنے اسماء اور صفات کے ذریعے ہے، لیکن ہمارے ساتھ اپنی ذات میں نہیں ہے۔" شیخ ابراہیم نے کہا: "نہیں، وہ ہمارے ساتھ اپنی ذات اور صفات میں ہے۔" ایک اَور شیخ نے پوچھا: "اِس بات کی کیا دلیل ہے؟" شیخ ابراہیم نے جواب دیا: "قرآن کہتا ہے 'اور اللہ تمہارے ساتھ ہے۔' سو، ہمیں خدا کی شخصی حضوری کو لازماً ماننا چاہئے۔" شیخ ابن اللبان نے کہا: " 'اور ہم اُس سے تم سے بھی زیادہ نزدیک ہوتے ہیں لیکن تم کو نظر نہیں آتے۔' یہ آیت خدا کے اپنے بندوں کے قریب ہونے کا ایک ثبوت ہے۔ یہ کہنے کا کہ 'تم کو نظر نہیں آتے' مقصد خدا کی انسان کے ساتھ نزدیکی پر زور دینا ہے۔" اُس نے اِس بات کا بھی ذِکر کیا: " 'اور ہم تو شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں۔' اِس کا مطلب ہے کہ وہ انتہائی قریب ہے، یہاں تک کہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔" شیخ ابراہیم نے کہا: "اِس لئے، خدا اپنی ذات کے بغیر اپنی تمام صفات کے ساتھ ہمارے قریب نہیں ہو سکتا۔" شیخ محمد المغربی الشاذلی شیخ الجلال سیوطی وہاں آئے اور اُنہیں سُنا۔ اُنہوں نے کہا: "خدا ازلی ہے جس کی کوئی ابتدا نہیں۔ خدا ابدی ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔ خدا شروع ہی سے اپنی تخلیق کے ساتھ ہے۔" وہ سب اُن کے ساتھ متفق ہوئے، اور مجلس برخاست ہوئی۔ وہ سب علماء فاضل خدا کی حضوری پر اُس کی صفات اور ذات سمیت متفق تھے جیسا کہ قرآن کہتا ہے: "اور اللہ تمہارے ساتھ ہے" اور "اللہ احسان کرنے والوں کے ساتھ ہے۔" کتاب مُقدّس متی 28: 20 میں کہتی ہے: "...اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا میں نے تم کو حکم دیا ہے اور دیکھو میں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں۔"

نتیجہ کے طور پر میں کہنا چاہوں گا کہ انسانی صورت میں الوہیت کا تجسم بہت ممکن ہے۔ اسلام اِس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ خدا اپنی صفات کے ذریعے اور اپنی ذات میں اپنی مخلوق کے ساتھ ہو سکتا ہے۔ یہ بھید بشری عقل و سمجھ سے بعید ہے۔

اب کیسے دیگر عام مسلمان کلمہ کے تجسم، خدا تعالیٰ کے جسم میں ظہور کے مسیحی اعتقاد کو قبول کرنا رد کر سکتے ہیں؟

سوال-8

اگر آدم کی خطا کی معافی کےلئے ایک مضحکہ خیز المناک ڈرامہ درکار تھا، تو آدم سے لے کر اب تک تمام انسانوں کے گناہوں کو معاف کرنے کےلئے کیا درکار ہو گا؟

جواب:

میں نے پہلے ہی بیان کر دیا ہے کہ مسیح کی قربانی نے دُنیا کے گناہوں کو دُور کر دیا، سو مجھے یہ بات دوبارہ دُہرانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کے مضحکہ خیز "ڈرامہ" کے بارے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ اِس دعوے میں پایا جاتا ہے کہ خدا نے یسوع کی شبیہ کسی اَور پر ڈال دی جسے مصلوب کیا گیا جس کی شناخت کے بارے میں مسلم علماء متفق نہیں ہیں۔

اُس کی شناخت کے بارے میں کی جانے والی چند قیاس آرائیاں ذیل میں دی گئی ہیں:

الف- وہ تیطاﺅس یہودی تھا جو مسیح کو گرفتار کرنے کےلئے ایک گھر میں داخل ہوا۔ اُسے یسوع نہ ملا۔ اللہ نے اُس کی شبیہ مسیح کی طرح کی کر دی۔ جب وہ باہر نکلا تو یہودیوں نے سوچا کہ وہ مسیح ہے، سو اُنہوں نے اُسے لیا اور مصلوب کر دیا۔

ب- جب یہودیوں نے مسیح کو گرفتار کر لیا تو اُن کی حفاظت کےلئے ایک محافظ کو مقرر کیا۔ جس کی شبیہ مسیح کی طرح کی ہو گئی اور مسیح آسمان پر صعود کر گیا۔ اُنہوں نے اُس محافظ کو لیا اور مصلوب کر دیا جو چِلاّ رہا تھا کہ "میں مسیح نہیں ہوں۔"

ج- عیسیٰ نے اپنے شاگردوں میں سے ایک سے جنت کا وعدہ کیا جس نے اُن کی جگہ لینے کےلئے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کر دیا۔ سو اللہ نے عیسیٰ کی شبیہ اُس پر ڈال دی۔ سو یہودیوں نے اُسے باہر نکالا اور مصلوب کر دیا، لیکن عیسیٰ آسمان پر اُٹھا لئے گئے۔

د- عیسیٰ کے شاگردوں میں سے ایک (یہوداہ) نے منافقت کی اور یہودیوں کے پاس گیا کہ اُنہیں پکڑوائے۔ جب وہ عیسیٰ کو لینے کےلئے اُن کے ساتھ اندر گیا تو اللہ نے اُس کی صورت عیسیٰ کی سی کر دی۔ پھر یہودیوں نے یہوداہ کو لیا اور مصلوب کر دیا۔

امام ابو جعفر الطبری نے اپنی تفسیر میں شبیہ کے الزام سے متعلق کئی روایات کا ذِکر کیا ہے:

الف- کچھ نے کہا "جب یہودیوں نے عیسیٰ اور اُن کے شاگردوں کے گرد گھیرا ڈال لیا، تو سب کی شبیہ عیسیٰ کی طرح کی ہو گئی۔ یہودی گھبرا گئے اور کسی اَور کو مار دیا (سلمة سے روایت )۔"

ب- ابن حمیة نے یعقوب العتمی سے اور اُس نے وھب بن منبہ سے روایت کی ہے، "عیسیٰ سترہ شاگردوں کے ساتھ آئے۔ یہودیوں نے اُنہیں گھیر لیا۔ اللہ نے شاگردوں کی شبیہ عیسیٰ کی طرح کی کر دی۔ یہودیوں نے شاگردوں سے کہا 'تم نے ہم پر سحر طاری کر دیا۔ اچھا ہے کہ ہمیں بتا دو کہ تم میں سے عیسیٰ کون ہے ورنہ تم سب مارے جاﺅ گے۔' تب عیسیٰ نے شاگردوں سے کہا 'آج کون جنت کی خاطر اپنی جان دینے کےلئے تیار ہے؟' شاگردوں میں سے ایک نے اپنے آپ کو رضاکارانہ طور پر پیش کیا اور یہودیوں کے پاس یہ کہتے ہوئے گیا کہ 'میں عیسیٰ ہوں۔' اُنہوں نے اُسے لیا اور مصلوب کر دیا۔"

ج- محمد بن الحسین نے السدی سے روایت کی ہے "بنی اسرائیل نے عیسیٰ اور اُن کے انیس شاگردوں کو ایک گھر میں گھیر لیا۔ عیسیٰ نے شاگردوں سے کہا 'کون میری صورت لینے، مرنے اور جنت میں جانے کےلئے تیار ہے؟' ایک شاگرد نے اپنے آپ کو پیش کیا اور اُسے باہر لے جا کر مصلوب کر دیا گیا، جبکہ عیسیٰ آسمان پر صعود کر گئے۔"

د- ابن اسحاق سے روایت ہے "بنی اسرائیل کے بادشاہ نے جس کا نام داﺅد تھا، عیسیٰ کو قتل کرنے کےلئے ایک آدمی بھیجا۔ اُس نے اپنے ساتھ اَور آدمی لئے۔ عیسیٰ اپنے تیرہ شاگردوں کے ساتھ تھے۔ جب اُنہیں پتا چلا کہ وہ آ گئے ہیں تو اُنہوں نے اپنے شاگردوں میں سے ایک کی شبیہ اپنی طرح کی کر دی۔ جب یہودیوں نے اُس شاگرد کو دیکھا تو اُنہوں نے اُسے باہر نکالا اور مصلوب کر دیا۔"

اب وہ شخص کون تھا جس کی شبیہ عیسیٰ کی طرح کی ہو گئی؟ کیا وہ یہوداہ تھا یا کوئی اَور؟ یہ ہے مضحکہ خیز ڈرامہ: خدا تعالیٰ پر ظلم و ستم کا الزام لگانا کہ اُس نے دھوکا دیا اور ایک مسکین و بے گناہ انسان کو حوالے کروا دیا کہ وہ مصلوب ہو اور مارا جائے۔ یہ خدا تعالیٰ کی ذات سے ماورا ہے کہ وہ کسی کو دھوکا دے۔ "وہ لوگ جو خدا پر ایمان رکھتے ہیں اُنہیں وہ دھوکا نہیں دیتا; یہ انسان کی اپنے ساتھی انسانوں کے ساتھ دھوکا دہی ہے۔"

سوال-9

مسیح کے آنے تک کیوں فدیہ و مخلصی کا منصوبہ التوا میں رہا؟ اُن سب لوگوں کے مُقدر میں کیا ہے جو مسیح کے فدیہ سے پہلے مر گئے؟

جواب:

خدا تعالیٰ نے اپنی مشورت میں دُنیا کی مخلصی کےلئے ایک زمان و مکان اور ایک قربانی مقرر کی۔ یہ منصوبہ لفظ "التوا" کو خارج کرتا ہے جسے آپ نے استعمال کیا ہے۔

یہ صحیح ہے کہ دُنیا سقوط ِآدم کے نتیجے میں لعنت کے تحت آ گئی۔ خدا نے فیصلہ کیا کہ ایسا ہمارے خداوند یسوع مسیح کے آنے کے وسیلے سب چیزوں کی بحالی سے پہلے عمل میں واقع ہو۔ اور ایسا اُس خرابی کے نتیجے میں ہونا تھا جس نے زمین کی ہئیت بدل دینی تھی۔ یوں سقوط کے نتائج اصلاح سے پہلے دیکھے جانے تھے۔

مزید یہ کہ موسیٰ نبی کی آمد سے پہلے جناب مسیح کی آمد مناسب نہ ہوتی، کیونکہ لوگوں نے عمومی طور پر خدا تعالیٰ کے خلاف پوری طرح سے بغاوت نہ کی تھی۔ باالفاظ دیگر، وہ سب کے سب بت پرستی کی تاریکی میں نہ تھے۔

غالباً مسیح کی طوفان نوح سے پہلے یا اُس کے فوراً بعد نہ آنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ آدم سے اپنے کلام کے مطابق زمین کو لوگوں سے بھرا ہوا دیکھنا چاہتا تھا (پیدایش 1: 28)۔

بابلی اسیری سے پہلے مسیح کی آمد مناسب نہ تھی کیونکہ شیطان کی مملکت اپنی عظمت کی بلندی تک نہ پہنچی تھی۔ اسیری سے پہلے بت پرستوں کی مملکتیں اتنی بڑی نہیں تھیں۔ سو خدا تعالیٰ نے اِسے مناسب سمجھا کہ مسیح تاریخ کی سب سے بڑی مملکت کے وقت میں آئے۔ وہ مملکت رومی سلطنت تھی جو اِس دُنیا میں شیطان کی دیدنی بادشاہت تھی۔ اِس عظیم مملکت پر اپنے غلبے سے مسیح نے شیطان کی بادشاہت کو جو اپنی قوت و عظمت کی بلندی پر تھی شکست دینی تھی۔

اہم بات یہ ہے "ابتدا میں ...کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا" جب وقت پورا ہو گیا تو وہ آیا کہ "عمّانُوایل...خدا ہمارے ساتھ" ہو تا کہ ہمارا فدیہ و کفارہ دے سکے۔ آنکھوں نے اُسے دیکھنا تھا، کانوں نے اُسے سُننا تھا، اور ہاتھوں نے اُسے چھونا تھا۔ وہ "فضل اور سچائی سے معمور ہو کر ہمارے درمیان رہا" اور آنکھوں نے اُس کا "جلال" دیکھنا تھا "باپ کے اکلوتے کا جلال۔" وہ جو اُس پر ایمان لائے اُنہوں نے اُس کی معموری میں سے پایا یعنی فضل پر فضل۔ مجسم کلام سب سے بڑا ظہور تھا جس سے خدا نے اپنا آپ نسلِ انسانی پر ظاہر کیا۔ خدا تعالیٰ نے نہ صرف اپنی قوت و عظمت کو ظاہر کیا بلکہ اُس نے انسانوں پر اپنے محبت و شفقت بھرے دِل اور اپنی رحمت و ترس کو بھی ظاہر کیا۔

ہاں، یوں مشیئت الہٰی پوری ہوئی۔ اِس سے پہلے کہ نجات کی کرنیں عمّانُوایل (خدا ہمارے ساتھ) کے ذریعے ظاہر ہوتیں دُنیا کو کچھ عرصہ کےلئے انتظار کرنا ضرور تھا۔ لیکن اُس عرصے کے دوران خدا بشِدّت اِس افسُردہ و مایوس دُنیا کے بارے میں فکرمند تھا۔

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسیح کے تجسم کے وقت دُنیا میں تین بااثر اقوام تھیں: یونانی، رومی اور یہودی۔ یونانی تعلیم یافتہ اور مہذب تھے، رومی مضبوط اور قوت کے مالک تھے اور یہودی خدا تعالیٰ کی شریعت کے نگہبان تھے۔ اِن تین اقوام نے نہ جانتے ہوئے مسیح کے راستے کی تیاری میں تعاون کیا۔ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ یہ غیر ارادی تعاون تدبیر الہٰی کی وجہ سے تھا تا کہ وہ جو "خداوند کے نام میں" آنے کو تھا اُس کا راستہ تیار ہو۔

سب سے پہلے، خدا نے رومیوں کو راہ کی تیاری میں استعمال کیا کہ وہ دُنیا کے مہذب حصوں کو اکھٹا کریں اور ہر طرف امن قائم کریں۔ اُس سے پہلے، چوروں اور ڈاکوﺅں کے گروہ ہر طرف دندناتے پھرتے اور تباہی پھیلاتے تھے اور سرزمین مُقدّس میں سامنے آنے والی کسی بھی خبر کےلئے اُس علاقے سے نکل کر دوسرے علاقوں میں پھیلنا ناممکن تھا۔

اِسی طرح، مسیح کےلئے راہ کی تیاری میں یونانیوں نے نادانستگی میں اپنی خوبصورت اور لچکدار زبان کو پھیلانے سے اپنا حصہ ادا کیا، یونانی زبان اُس وقت ساری سلطنت میں بڑی اور سرکاری زبان تھی۔ وہ زبان متمدن دُنیا کے تمام حصوں تک انجیل کے پھیلاﺅ کےلئے ایک زبردست ذریعہ تھی۔

جہاں تک یہودیوں کا تعلق ہے جو تمام دُنیا میں پھیلے ہوئے تھے، وہ اپنے ساتھ اپنے مُقدّس صحیفے لے کر گئے کیونکہ موسیٰ نبی نے اُنہیں حکم دیا تھا کہ ہر ہفتہ (سبت) کے دن اپنی جماعت میں اُنہیں پڑھیں۔

اُن اہم ترین عوامل میں سے ایک جنہوں نے اِن قوموں تک پہنچنے میں مدد کی، کتاب مُقدّس کا یونانی زبان میں ترجمہ تھا، جس نے غیر اقوام کو اِس قابل بنایا کہ وہ مسیح کے آنے کے بارے میں نبوتوں کو دیکھ سکیں اور اُسے قبول کرنے کےلئے تیار ہوں۔ یہ حقیقتاً ایک معجزہ تھا کہ اِن سب اقوام نے جانے بغیر خداوند کی راہ کو تیار کیا۔

سب سے انوکھی بات، مسیح کی آمد سے پہلے یہودی قوم کا بشِدّت انتظار تھا۔ علما کی رائے یہ ہے کہ یہ انتظار مکاشفہ منقطع کئے جانے کے تقریباً پانچ صدیوں پر محیط عرصے کی وجہ سے تھا۔ ایک فرد شاید اِن حالات میں لوگوں کے بھول جانے اور اُن کی اُمیدوں کے کمزور پڑ جانے کی توقع کرتا ہو۔ لیکن ایسا نہ ہوا، کیونکہ وہ بڑی شِدّت سے قوموں کی اُمید کے منتظر تھے۔

اِس میں کوئی شک نہیں کہ غیراقوام جنہوں نے کتاب مُقدّس کو پڑھا، وہ بھی یہودیوں کے ساتھ اِس انتظار میں شریک ہوئیں۔ اِس بات کا ثبوت ارضِ مُقدس میں اُن مجوسیوں کی آمد سے ملتا ہے جو بیت لحم کی چرنی میں بچے یسوع کو عقیدت سے دیکھنے کےلئے آئے۔

یہ قابل ذِکر ہے کہ جب کلام بیت لحم کی چرنی میں متجسد ہوا، تو کچھ انتہائی اہم واقعات رونما ہوئے جنہوں نے خداوند کے منتظر افراد کے دِلوں میں اُمید کو زندہ کیا۔ وہ واقعات یہ ہیں:

الف- نبوت اور مکاشفہ کی روح کی واپسی جو ملاکی نبی کے بعد سے موقوف تھی۔ نبیوں کو القا کرنے والا موجود تھا، یہ نعمت بحال ہوئی جو سب سے پہلے زکریاہ کاہن، پھر الیشبع، پھر کنواری مریم، پھر یوسف، بوڑھے شمعون، حنّہ نبیہ، اور آخر میں یوحنا اصطباغی میں نظر آتی ہے۔

ب- وہ عظیم خوشی جو آسمان و زمین پر ہوئی۔ آسمان کے فرشتے گاتے ہوئے اُترے "عالم بالا پر خدا کی تمجید ہو اور زمین پر اُن آدمیوں میں جن سے وہ راضی ہے صُلح" (لوقا 2: 14)۔ آسمان اور زمین کے رہنے والے کلمہ کے تجسد کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ وہ خدا کی تیار کردہ مخلصی کے وعدوں کو جانتے تھے۔

ج- بچے یسوع کا ہیکل میں داخلہ۔ اِس سے حجّی نبی کی نبوت پوری ہوئی "میں سب قوموں کو ہلا دوں گا اور اُن کی مرغوب چیزیں آئیں گی اور میں اِس گھر کو جلال سے معمور کروں گا ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ چاندی میری ہے اور سونا میرا ہے ربُّ الافواج فرماتا ہے۔ اِس پچھلے گھر کی رونق پہلے گھر کی رونق سے زیادہ ہو گی ربُّ الافواج فرماتا ہے اور میں اِس مکان میں سلامتی بخشوں گا ربُّ الافواج فرماتا ہے" (حجّی 2: 7- 9)۔

سوال-10

مسیحیت سے پہلے تثلیث کا تصور فارس، یونان، روم، ہندوستان، چین اور مصر کی بت پرست دنیا میں موجود تھا۔ اِس کا راز کیا ہے؟

جواب:

الف- قدیم مصری تین خداﺅں کو مانتے تھے جو اوسیرس، آئسس اور ہورس تھے لیکن یہ ایک نہیں بلکہ تین دیوتا تھے۔

ب- اِسی طرح، ہندو ایمان رکھتے تھے کہ ایک سادہ دیوتا کا جوہر موجود تھا جو اپنی ذات سے واقف نہ تھا، اور کسی بھی طرح کی صفات سے محروم تھا۔ اُسے ظاہر کرنے کےلئے اور دوسروں سے برتر ہونے کےلئے تین دیوتا اُس میں سے نکلے۔ پہلا دیوتا برہما، خالق اور ہر شے کی اصل تھا۔ دوسرا دیوتا وشنو، ہر شے کا محافظ تھا۔ تیسرا دیوتا شیوا تباہ کرنے والا تھا۔

ج- اہلِ فارس دو بڑے خداﺅں کو مانتے تھے: پہلا خدا اہورامزدا تھا۔ وہ اچھائی کا خدا تھا۔ دوسرا خدا اہرمن تھا۔ وہ بدی کا خدا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ تمام اچھائی اور روحانی چیزیں اچھائی کے خدا سے صادر ہوتی ہیں جبکہ ہر بدی اور مادی چیز بدی کے خدا سے صادر ہوتی ہے۔ اور چونکہ اُنہوں نے دیکھا کہ دونوں میں کشمکش مسلسل موجود ہے اِس لئے اُنہوں نے کہا کہ یہ دونوں خدا ازلی اور مساوی ہیں، اور ایک کا دوسرے پر غالب آنا ناممکن ہے۔

کسی بھی طرح سے مسیحی تثلیث کا اِن بت پرستانہ عقائد کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور اُن کے تصور میں کچھ بھی ایسا نہیں جو تثلیث کی نفی کرتا ہو۔ مثلاً، نام "اللہ" اسلام سے پہلے موجود تھا، لیکن یہ حقیقت قرآن کےلئے ایک مشکل پیدا نہیں کرتی۔ قبل از اسلام کے عربوں نے اپنی نظموں اور تحریروں میں اِسے استعمال کیا ہے۔ کیا یہ قرآن کی اہمیت کو کم کر دیتا ہے کہ بت پرستوں کے وقتوں کی مخصوص باتوں کا مسلمانوں کو حکم دیا گیا؟ اِسی طرح حج ،عمرہ، وقوف عرفات، مزدلفہ جانا، رمی اور جمرات، اور حجر اسود کو بوسہ دینا یہ سب قبل از اسلام بت پرستوں کے شعائر تھے۔

آپ الاسراء و المعراج کے واقعے کے بارے میں کیا کہیں گے؟ قبل از اسلام کی زرتشت کی مذہبی کتابوں میں اِسی طرح کے واقعات بیان ہیں۔ یا پھر کیا یہ اسلام کو کمزور کرتا ہے کہ اِس سے پہلے یہودی مذہب میں واحدانیت کا عقیدہ پایا جاتا تھا؟

سوال-11

اِس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ شاگرد جو مسیح کے زمانے میں تھے اور جنہوں نے اُس کی پیروی کی وہ اُس کی الوہیت پر ایمان رکھتے تھے۔ کیا آپ مسیح کو شاگردوں سے زیادہ بہتر جانتے ہیں؟

جواب:

نیا عہدنامہ ہمیں بتاتا ہے کہ یسوع نے اپنے صعود ِآسمانی سے پہلے اپنے شاگردوں کو اکھٹا کیا اور اُن سے کہا "یہ میری وہ باتیں ہیں جو میں نے تم سے اُس وقت کہی تھیں جب تمہارے ساتھ تھا کہ ضرور ہے کہ جتنی باتیں موسیٰ کی توریت اور نبیوں کے صحیفوں اور زبور میں میری بابت لکھی ہیں پوری ہوں۔ پھر اُس نے اُن کا ذہن کھولا تا کہ کتاب مُقدّس کو سمجھیں۔ اور اُن سے کہا یوں لکھا ہے کہ مسیح دُکھ اُٹھائے گا اور تیسرے دن مُردوں میں سے جی اُٹھے گا۔ اور یروشلیم سے شروع کر کے سب قوموں میں توبہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اُس کے نام سے کی جائے گی۔ تم اِن باتوں کے گواہ ہو۔ اور دیکھو جس کا میرے باپ نے وعدہ کیا ہے میں اُس کو تم پر نازل کروں گا لیکن جب تک عالم بالا سے تم کو قوت کا لباس نہ ملے اِس شہر میں ٹھہرے رہو۔ پھر وہ اُنہیں بیت عنیاہ کے سامنے تک باہر لے گیا اور اپنے ہاتھ اُٹھا کر اُنہیں برکت دی۔ جب وہ اُنہیں برکت دے رہا تھا تو ایسا ہوا کہ اُن سے جُدا ہو گیا اور آسمان پر اُٹھایا گیا۔ اور وہ اُس کو سجدہ کر کے بڑی خوشی سے یروشلیم کو لوٹ گئے۔ اور ہر وقت ہیکل میں حاضر ہو کر خدا کی حمد کیا کرتے تھے" (لوقا 24: 44- 53)۔

لوقا کی انجیل کی اِن اختتامی آیات کے مطابق ہم دیکھتے ہیں کہ شاگردوں نے مسیح کے رخصت ہونے پر اُس کی پرستش کی۔ کتاب مُقدّس میں بہت سے ایسے حوالہ جات بھی موجود ہیں جہاں شاگرد انفرادی طور پر مسیح کی الوہیت پر ایمان لائے:

الف- یوحنا انجیل نویس کی گواہی:

"ابتدا میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا۔ یہی ابتدا میں خدا کے ساتھ تھا۔ سب چیزیں اُس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اُس میں سے کوئی چیز بھی اُس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی۔ اُس میں زندگی تھی اور وہ زندگی آدمیوں کا نور تھی" (یوحنا 1: 1- 4)۔ "خداوند خدا جو ہے اور جو تھا اور جو آنے والا ہے یعنی قادر مطلق فرماتا ہے کہ میں الفا اور اومیگا ہوں" (مکاشفہ 1: 8)۔

ب- توما کی گواہی:

"آٹھ روز کے بعد جب اُس کے شاگرد پھر اندر تھے اور توما اُن کے ساتھ تھا اور دروازے بند تھے یسوع نے آ کر اور بیچ میں کھڑا ہو کر کہا تمہاری سلامتی ہو۔ پھر اُس نے توما سے کہا اپنی انگلی پاس لا کر میرے ہاتھوں کو دیکھ اور اپنا ہاتھ پاس لا کر میری پسلی میں ڈال اور بے اعتقاد نہ ہو بلکہ اعتقاد رکھ۔ توما نے جواب میں اُس سے کہا اے میرے خداوند! اے میرے خدا!" (یوحنا 20: 26- 28)

ج- پطرس کی گواہی:

"پس یسوع نے اُن بارہ سے کہا کیا تم بھی چلا جانا چاہتے ہو؟ شمعون پطرس نے اُسے جواب دیا اے خداوند! ہم کس کے پاس جائیں؟ ہمیشہ کی زندگی کی باتیں تو تیرے ہی پاس ہیں۔" (یوحنا 6: 67- 68)

"اُس نے تیسری بار اُس سے کہا اے شمعون یوحنا کے بیٹے کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے؟ چونکہ اُس نے تیسری بار اُس سے کہا کیا تُو مجھے عزیز رکھتا ہے، اِس سبب سے پطرس نے دِلگیر ہو کر اُس سے کہا اے خداوند! تُو تو سب کچھ جانتا ہے۔ تجھے معلوم ہی ہے کہ میں تجھے عزیز رکھتا ہوں۔ یسوع نے اُس سے کہا تُو میری بھیڑیں چرا۔" (یوحنا 21: 17)

د- پولس کی گواہی:

"اور قوم کے بزرگ اُن ہی کے ہیں اور جسم کے رُو سے مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا جو سب کے اُوپر اور ابد تک خدایِ محمود ہے۔" (رومیوں 9: 5)

سوال-12

توریت بیان کرتی ہے "کیونکہ جسے پھانسی ملتی ہے وہ خدا کی طرف سے ملعون ہے" (استثنا 21: 23)۔ آپ اپنے گلے میں صلیب ڈال کر فخر کرتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ مسیح آپ کے تمام دعووں سے پاک ہے۔ وہ مصلوب نہیں ہوا تھا۔ ہم متفق کب ہوں گے؟

جواب:

الف- توریت بالکل صحیح ہے۔ جناب مسیح صلیب پر مصلوب ہوئے تا کہ اُن سب کی لعنت کو دُور کر سکیں جو شریعت (توریت) کی کتابوں میں مذکورہ باتوں پر عمل کرنے میں ناکام ہوئے۔

ب- ایک مسیحی اپنی گردن میں صلیب ڈالنے سے فخر کا اظہار کرتا ہے۔ جو کچھ پولس نے فرمایا اُس کو سُنیں: "لیکن خدا نہ کرے کہ میں کسی چیز پر فخر کروں سِوا اپنے خداوند یسوع مسیح کی صلیب کے جس سے دُنیا میرے اعتبار سے مصلوب ہوئی اور میں دُنیا کے اعتبار سے" (گلتیوں 6: 14)۔

ج- مسیح کی موت ایک حقیقت ہے جو انبیا کی نبوتوں اور شاگردوں کی گواہیوں پر مبنی ہے، شاگردوں نے اُسے مرتے ہوئے دیکھا اور اُس کے جی اُٹھنے کے بعد بھی اُسے دیکھا۔ تاریخ بھی اِس حقیقت کی ایک گواہ ہے۔ اگر ہم رسولوں کی الہامی تحریروں کا بغور جائزہ لیں تو ہمیں پتا چلے گا کہ انجیل جس کی آغازِ مسیحیت سے منادی کی گئی اُسے لاکھوں لوگوں نے قبول کیا اور نجات پائی۔ نیا عہدنامہ خوشخبری (انجیل) کو بیان کرتا ہے۔ پولس نے اِس بارے میں بیان کیا: "اب اے بھائیو! میں تمہیں وہی خوشخبری جتائے دیتاہوں جو پہلے دے چکا ہوں جسے تم نے قبول بھی کر لیا تھا اور جس پر قائم بھی ہو۔ اُسی کے وسیلہ سے تم کو نجات بھی ملتی ہے بشرطیکہ وہ خوشخبری جو میں نے تمہیں دی تھی یاد رکھتے ہو ورنہ تمہارا ایمان لانا بے فائدہ ہوا۔ چنانچہ میں نے سب سے پہلے تم کو وہی بات پہنچا دی جو مجھے پہنچی تھی کہ مسیح کتاب مُقدّس کے مطابق ہمارے گناہوں کےلئے موا۔ اور دفن ہوا اور تیسرے دن کتاب مُقدّس کے مطابق جی اُٹھا" (1-کرنتھیوں 15: 1- 4)۔

دُنیا میں انجیل کے پھیلاﺅ کے تقریباً پانچ سو سال بعد ایک آدمی آیا جس نے اِس بائبلی حقیقت کی مخالفت کی اور اِسے قبول کرنے سے انکار کیا کہ جیسے وہ تمام دُنیا کے مسیحیوں سے کہہ رہا ہے: "تم غلط ہو۔ تمہاری کتاب اور تمہارے دین میں غلطی ہے۔"

صلیب کے موضوع کو مدِ نظر رکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا کہ آپ کو وہ سب دکھاﺅں جو پرانے عہدنامہ کے انبیا اور مسیح کے شاگردوں نے اور خود مسیح نے اپنے بارے میں منکشف کیا۔ میں آپ کو تاریخ دانوں کے پاس بھی لے کر جانا چاہتا تھا اور جو کچھ آنکھوں دیکھے گواہوں نے کہا اُس سے بھی متعارف کروانا چاہتا تھا۔ لیکن میں نے اِسے غیر ضروری پایا کیونکہ عالم سماوی تمام کتابوں کے ساتھ جو ہمیں دی گئیں، اور عالم ارض اپنے تمام تاریخی اندراج کے ساتھ مصلوبیت کی گواہی دیتا ہے۔

د- آپ کے سوال کے آخری حصے سے متعلق میں کہنا چاہوں گا کہ نیا عہدنامہ ہمیں آگاہ کرتا ہے کہ جب یسوع نے یہودیوں تک اپنی دعوت پہنچائی تو کہا "جو کچھ باپ مجھے دیتا ہے میرے پاس آ جائے گا اور جو کوئی میرے پاس آئے گا اُسے میں ہرگز نکال نہ دوں گا" (یوحنا 6: 37)۔ آپ نے یہ بھی فرمایا: "قیامت اور زندگی تو میں ہوں۔ جو مجھ پر ایمان لاتا ہے گو وہ مر جائے تو بھی زندہ رہے گا" (یوحنا 11: 25)۔

یسوع کے پاس آنے کا مطلب ہے: اُسے شخصی نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنا، کہ نجات اُس فدیہ و کفارہ کے ذریعہ ہے جو اُس نے صلیب پر دیا۔ یسوع پر ایمان رکھنے میں اُس کی الوہیت پر ایمان رکھنا شامل ہے۔ اگر آپ واقعی اِس سے متفق ہیں تو آئیں ہم اُن الفاظ کو دہرائیں جو یروشلیم کے رہنے والوں نے اُس وقت گائے جب یسوع سلامتی کے شاہزادہ کے طور پر یروشلیم میں تشریف لایا "مبارک ہے وہ جو خداوند کے نام پر آتا ہے" (متی 21: 9)۔

پھر ہم مخلصی یافتہ افراد کے بڑے گروہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مخلصی کے گیت میں شامل ہو سکتے ہیں: "جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور جس نے اپنے خون کے وسیلہ سے ہم کو گناہوں سے خلاصی بخشی۔ اور ہم کو ایک بادشاہی بھی اور اپنے خدا اور باپ کےلئے کاہن بھی بنا دیا۔ اُس کا جلال اور سلطنت ابدُالآباد رہے۔ آمین" (مکاشفہ ۱: 5- 6)۔

سوالات

کتاب "سچائی کی فتح" کے سوالات حل کیجئے۔ اب جبکہ آپ نے اِس کتاب کا مطالعہ کیا ہے، ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب دیں اور اپنے جوابات ہمیں بھجیں۔

  1. مسیحی تعلیمات کے مطابق ایمان کی تعریف کیا ہے؟

  2. کیا انسانی عقل غیب کا ادراک کر سکتی ہے؟

  3. ایمان کی تعریف میں کچھ مثالیں بیان کیجئے۔

  4. سورہ مائدہ 5: 116 میں کس بدعت کا ذِکر کیا گیا ہے؟

  5. یسوع کی اپنے بارے میں گواہی کی مثالیں دیجئے۔

  6. خدا باپ نے کیسے بیٹے مسیح کے بارے میں گواہی دی؟

  7. مسیح کے بارے میں رسولوں کی گواہی کی خصوصیت کیا ہے؟

  8. مسیحی تعلیمات کے مطابق روح القدس کون ہے؟

  9. مسیحی کفارہ کی کیا بنیاد ہے؟

  10. کتاب مُقدّس کے مطالعہ سے ہم کیا سیکھتے ہیں؟

  11. کیا کوئی گناہ کے بغیر پیدا ہوا ہے؟ کتاب مُقدّس اِس بارے میں کیا کہتی ہے؟

  12. یسوع نام کا کیا مطلب ہے؟ کیا اِس کا تعلق گناہ کے ساتھ ہے؟

  13. کیا نجات اتفاقی امر ہے یا یہ خدا کا ابدی منصوبہ ہے؟

  14. خدا تعالیٰ نے انسان اوّل کو کس کی صورت پر تخلیق کیا؟

  15. آدم اور حوا کس طرح شیطان کی آزمایش میں گر گئے؟

  16. زبور 14 اور یرمیاہ 17 کی کس آیت کا کتاب میں ذِکر کیا گیا ہے؟

  17. گناہ کی مزدوری کیا ہے؟

  18. کب پہلی بار خدا نے کفارہ دینے والی قربانی کا تقاضا کیا؟

  19. تمام قربانیوں کا تقاضا کرنے میں خدا کا کیا مقصد تھا؟

  20. تمام قربانیوں کی حتمی علامت کیا ہے؟

  21. مسیحی تعلیم میں تجسم کا کیا مطلب ہے اور اِس کا مقصد کیا ہے؟

  22. مسیحی تعلیم میں کفارہ کا کیا مطلب ہے؟

  23. کیا ہمیں توریت میں ثالوث میں واحدانیت کا کوئی اشارہ ملتا ہے؟ کوئی ایک مثال دیں۔

  24. اتھناسیس کے عقیدہ کا خلاصہ کیا ہے؟

  25. کیا وہ تثلیث جس کا اسلام نے مقابلہ کیا حقیقی مسیحی تثلیث ہے؟

  26. فلسفی اور علمائے اسلام تثلیث کے عقیدہ کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟

  27. اِس کتاب میں دیئے گئے سوالات اور اُن کے جوابات کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟


The Good Way
P.O.Box 66
        CH - 8486 
        Rikon
        Switzerland